بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محکمہ کی اجازت کے بغیر جنگل کی لکڑیاں کاٹنا


سوال

محکمہ کی اجازت کے بغیر جنگل کی لکڑیاں کاٹ سکتے ہیں   یا نہیں؟

جواب

1:اگر جنگل کسی قوم ،کسی قبیلے یا حکومت کا باقاعدہ مملوک   ہو تو اس سے بلااجازت لکڑیاں وغیر ہ کاٹ کر یا جمع کر کے فروخت کرنا جائز   نہیں   ہے اور آمدنی بھی حلال  نہیں ہے،البتہ اگر  ان کی طرف سے لکڑی وغیرہ کاٹنے کی اجازت ہے،یاایسی لکڑیاں جو ان مالکان کی طرف سے  ان کی کاٹنے  میں رعایت ہوتی ہے  ،مثلاً وہ لکڑیاں  قیمتی نہیں ہیں اور مالکان نےخودنہیں اگائے اور جو لوگ جنگل میں رہتے ہیں یا جنگل کے قریب رہتے ہیں ان کو صرف اپنے گھروں میں جلانے کی اجازت ہو تو ایسی  لکڑیاں کاٹنے میں  شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

2: اور اگر جنگل کسی قوم ،کسی قبیلے یا حکومت کا باقاعدہ مملوک  نہیں ہےاور نہ ہی حکومت کا اس پر قبضہ ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے لکڑیاں کاٹنے کی ممانعت ہے  تو ایسے جنگل سے لکڑیاں وغیر ہ کاٹ کر یا جمع کرکے فروخت کرنا جائز ہے،اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے ۔

3:اور اگر کسی     غیر مملوکہ جنگل پر حکومت کا قبضہ ہوگیا تو بدون اجازت یا خرید کے اس جنگل کی لکڑیاں کاٹنا درست نہیں ہے۔

4:اور اگر جنگل غیرمملوک ہواور اس    پر کسی کاقبضہ نہ ہو      لیکن حکومت کی طرف سے    ویسے ہی لکڑی کاٹنےکی ممانعت ہے ، اور درخت بھی خودرو ہے تو اس کی لکڑیاں کاٹ لینے کی گنجائش ہے، لیکن   چوں کہ اس میں مقدمہ قائم ہونے کا اندیشہ ہےجس میں ذلت ہوگی ،اور مسلمان کو ذلت سے بچنا واجب ہے،اس  لیے اس صورت میں بھی   بچنا   چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

(1):"‌والحطب في ملك رجل ليس لأحد أن يحتطبه بغير إذنه، وإن كان غير ملك فلا بأس به، ولا يضر نسبته إلى قرية أو جماعة ما لم يعلم أن ذلك ملك لهم، وكذلك الزرنيخ والكبريت والثمار في المروج والأودية."

(کتاب احیاء الموات ،فصل فی الشرب،440/6،دار الفکر)

 وفیہ ایضاً:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج: 4، ص: 61، ط: سعید)

 مرقاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " «ألا لا تظلموا، ألا ‌لا ‌يحل ‌مال ‌امرئ إلا بطيب نفس منه»

(" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى."

(کتاب البیوع ،باب الغصب و العاریۃ،1974/5،رقم،2946،دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

(2):"وأماما لا ينبت عادة إلا بصنع العبد كالقتة والقصيل وما بقي من حصاد الزرع ونحو ذلك في أرض مملوكة يكون مملوكا ولصاحب الأرض أن يمنع غيره، ويجوز بيعه ونحو ذلك لأن الإنبات يعد اكتسابا له فيملكه، ولأن الأصل أن يكون من المملوك مملوكا إلا أن الإباحة في بعض الأشياء تثبت على مخالفة الأصل بالشرع والشرع ورد بها في أشياء مخصوصة فيقتصر عليها.(وأما) أرض الموات فالكلام فيها في مواضع في تفسير الأرض الموات، وفي بيان ما يملك الإمام من التصرف في الموات، وفي بيان ما يثبت به الملك في الموات، وما يثبت به الحق فيه دون الملك، وفي بيان حكمه إذا ملك.

(أما) الأول: فالأرض الموات هي أرض خارج البلد لم تكن ملكا لأحد ولا حقا له خاصا فلا يكون داخل البلد موات أصلا، وكذا ما كان خارج البلدة من مرافقها محتطبا بها لأهلها أو مرعى لهم لا يكون مواتا حتى لا يملك الإمام إقطاعها؛ لأن ما كان من مرافق أهل البلدة فهو حق أهل البلدة كفناء دارهم وفي الإقطاع إبطال حقهم."

(کتاب الاراضی ،194/6،ط،دار الکتب العلمیۃ)

 امداد الاحکام میں ہے:

(3۔4):"اگر کسی جنگل پر کسی خاص صورت سے قبضہ ہوا جس کو عرفاً قبضہ کہاجاسکے گورنمنٹ کا قبضہ ہوگیا تو بدون اجازت یا خرید کےاس جنگل کی لکڑیاں کاٹنا درست نہیں ہے،اور اگر جنگل پر کسی کاقبضہ نہیں ہواویسے ہی ممانعت ہےتو اگر زمین کسی کی ملکیت نہیں ہے اور درخت بھی خودرو ہے تو اس کی لکڑیاں کاٹ لینے کی گنجائش ہے لیکن  چونکہ اس میں مقدمہ قائم ہونے کا اندیشہ ہےجس میں ذلت ہوگی ،اور مسلمان کو ذلت سے بچنا واجب ہے،اس لئے اس صورت میں بھی چوری سے بچنا واجب ہے۔"

(اس جنگل کی لکڑیاں کاٹنے کاحکم جس پرحکومت نے قبضہ نہیں کیاہو مگر ممانعت  کررکھی ہے،409/4،ط،ادارۃ المعارف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں