بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مخلوط تعلیمی نظام میں پڑھانا


سوال

میں ایک نوجوان ہوں اور پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر ہوں جہاں پر لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں ہمارا  اسکول آٹھویں جماعت تک ہے کیا میرا یہاں پڑھانا جائز ہے کہ نہیں جبکہ میرے پاس دوسرا آپشن بھی نہیں ہے۔  براہ کرم جواب ارسال فرمائیں

جواب

اگر آپ جس ادارے میں پڑھاتے ہیں وہاں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے مخلوط تعلیمی نظام قائم ہو تو شرعاً مخلوط تعلیمی نظام درست  نہیں ہے، اس لیے ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھانا درست نہ ہوگا۔شرعی حکم یہ ہے کہ لڑکیوں اورلڑکوں دونوں کا تعلیمی نظام اختلاط سے پاک اور شرعی پردے کے ماحول میں ہو، جہاں لڑکوں کو مرد اور لڑکیوں کو  خواتین معلمات پڑھائیں۔

مرد استاذ کا بالغہ  یا قریب البلوغ لڑکیوں کو بے پردہ پڑھانا، اسی طرح کسی عورت کا بالغ یا قریب البلوغ لڑکوں کو بے پردہ تعلیم دینا بھی شرعاً درست نہیں ہے۔

البتہ اختلاط سے پاک ماحول ہو اور شرعی شرائط کا لحاظ کیاجاتاہو یعنی اگر لڑکیاں  باپردہ ہوکر قریبی تعلیم گاہ میں آئیں اور لڑکوں کےساتھ اختلاط نہ ہو اورپڑھائے جانے والے مضامین و کتب میں خلافِ شرع کوئی بات نہ ہو  اور استاذ اور طالبات کے درمیان دیوار یا پردہ حائل ہو تو پڑھاناجائز ہوگا، نیز اس کے ساتھ کبھی کسی غیر محرم عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائےتو  بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت بات کرنا جائز ہوگا، بلاضرورت بات کرنے سے بچنا ضروری ہے،نیز ہنسی مزاح کرنے یا اس کا جواب دینے کی بھی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ امر سخت گناہ ہے۔ (یہ ملحوظ رہے کہ عصری تعلیم گاہوں میں مذکورہ شرائط کا لحاظ کرنا تقریباً ناممکن ہے)

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں سائل  مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھا رہاہے تو پہلے وہ کوشش کرے کہ اس ادارے میں شرعی ماحول قائم ہوجائے، اگر اس کی آواز مؤثر نہ ہو تو جب تک متبادل انتظام نہ ہو اپنی ذات کی حد تک شرعی اَحکام (نظروں کی حفاظت، بلاضرورت بات چیت اور ہنسی مزاح سے اجتناب وغیرہ) کی رعایت کرتے ہوئے وہاں تدریس کرے، اور کسی غیر مخلوط تعلیمی ادارے میں تدریس کی کوشش جاری رکھے، جیسے ہی غیرمخلوط تعلیمی ادارے میں ملازمت میسر آجائے وہاں منتقل ہوجائے۔

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وصرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى ولهذا قال - صلى الله عليه وسلم - «التسبيح للرجال والتصفيق للنساء» فلا يجوز أن يسمعها الرجل ومشى عليه المصنف في الكافي فقال ولا تلبي جهرا؛ لأن صوتها عورة ومشى عليه صاحب المحيط في باب الأذان وفي فتح القدير وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقرآن في الصلاة فسدت كان متجها."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، 285/1، ط: دارالكتاب الإسلامي)

تفسیرِ ابن کثیر میں ہے:

"فقوله تعالى: وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن أي عما حرم الله عليهن من النظر إلى غير أزواجهن، ولهذا ذهب كثير من العلماء إلى أنه لا يجوز للمرأة أن تنظر إلى الرجال الأجانب بشهوة ولا بغير شهوة أصلا.

واحتج كثير منهم بما رواه أبو داود والترمذي من حديث الزهري عن نبهان مولى أم سلمة أنه حدث أن أم سلمة حدثته أنها كانت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وميمونة قالت فبينما نحن عنده أقبل ابن أم مكتوم فدخل عليه وذلك بعد ما أمرنا بالحجاب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم «احتجبا منه» فقلت يا رسول الله أليس هو أعمى لا يبصرنا ولا يعرفنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم «أو عميا وان أنتما؟ ألستما تبصرانه»،  ثم قال الترمذي هذا حديث حسن صحيح. وذهب آخرون من العلماء إلى جواز نظرهن إلى الأجانب بغير شهوة كما ثبت في الصحيح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل ينظر إلى الحبشة وهم يلعبون بحرابهم يوم العيد في المسجد وعائشة أم المؤمنين تنظر إليهم من ورائه وهو يسترها منهم حتى ملت ورجعت  .وقوله ويحفظن فروجهن ، قال سعيد بن جبير: عن الفواحش. وقال قتادة وسفيان: عما لا يحل لهن. وقال مقاتل: عن الزنا."

(سورة المؤمنون، الآية: 31، 41/6، ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100642

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں