بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مخلوط تعلیم گاہوں میں پڑھانے والے کی امامت


سوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلئہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے یہاں مسلم اسکول اور غیر کا بھی بہت سے اسکول ہیں ، اور تقریباً ہر اسکول میں اردو، عربی اور قرآن پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے، اگر کسی مسجد کے ما تحت کوئی اسکول ہو یعنی مسجد اور اسکول کا کمیٹی ایک ہو تو اس مسجد میں امامت کرنے کی شرط یہ ہے کہ امام ھذا اسکول میں بچوں اور بچیوں کو بھی تعلیم دیگا اور ساتھ میں امامت بھی کرے گا۔کسی ایک شق کو اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسئلہ یہ کہ اسکولوں میں اکثر بالغ بچیاں بھی پڑھتیں ہیں اور شریعت کا مسئلہ یہ ہے کہ غیر محرم کو دیکھنا ، ان سے باتیں کرنا حرام ہے ، اور پڑھانے کے وقت میں ان چیزوں سے بچنا مشکل ہے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ:(۱) کیا ایسے شخص امامت کر سکتا ہے؟اور اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی؟(۲) اگر کوئی عالمِ دین کسی دوسرے عالم یا کوئی استاد اپنے شاگرد کو اس یسے مسجد میں بھیجنے کا مشورہ، یا حکم دے تو اس کی اس کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کے سلسلہ شریعتِ مطہرہ میں کیا حکم ہے؟ (۳) اگر امامِ مذکورہ سے کہا جائے کہ تم بازار بھی جاتے ہو وہاں پر بھی بے پردگی اور نامحرم عورتیں ہیں ، لہذا اسکول میں پڑھانے اور بازار میں جانے کے درمیان کیا فرق ہیں۔ یعنی بازار میں جانے کا مسئلہ کو اسکول میں نابالغ بچیوں کو پڑھانے پر قیاس کیا ہے ۔ یہ قیاس کرنا کیسا ہے ؟(۴) جن مساجد اور اسکول کے کمیٹیوں کی طرف سے یہ شرط رکھی گئی ان کے لئے شریعت کی طرف سے کیا حکم ہیں؟ مہربانی کرکے ان مسائل کو نصوصِ شرعیہ کی روشنی کے ساتھ جلد ارسال فرمائے۔

جواب

اگر بالغ بچیوں کی یہ تعلیم پردہ کے اہتمام کے بغیر مخلوط ماحول میں دی جاتی ہو تو نامحرم عورتوں سے میل جول رکھنے والے ایسے امام کی امامت مکروہ ہے ، کراہت کے ساتھ اس کی اقتداء میں ادا کی جانے والی نماز ہو جائیگی لیکن ایسے شخص کو مستقل امام نہ بنایا جائے۔ ۲: خلاف شرع امور میںں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ ۳: بازار آدمی ضرورت کے تحت جاتا ہے اور وہاں حتی الامکان اپنے آپ کو بچایا جاسکتا ہے اور اس طرح کے اسکول وغیرہ میں اس گناہ کا ارتکاب اپنے اختیار سے کیا جاتا ہے اس لیے دونوں میں فرق ہے ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ۴: اس طرح کی خلاف شرع شرائط رکھ کر اللہ رب العزت کی ناراضگی مول لینے سے اجتناب کیا جائے ایسی شرائط لگانا اور ان پر عمل کرنا شرعا جائز نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں