بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی والے اگر مخلوط تقریب منعقد کرنے پر اصرار کریں تو کیا کرے؟


سوال

ایک جگہ رشتہ  پکّا ہوگیا ہے ، اب جب  شادی کی تاریخ رکھنے کے  لیے  لڑکی  والے  گھر آئے تو  لڑکے نے کہا کہ بارات میں پارٹیشن ہوگا اور لڑکا رسم کے لیے اسٹیج پر لڑکی کے پاس نہیں آئےگا، لڑکی کے پاس آنے کا مطلب یہ ہے کہ پارٹیشن ختم ہوجاۓگا اور خواتین اور مرد سب ایک ساتھ اسٹیج کے پاس ہوں گے، لڑکا کہہ رہا ہے کہ شادی سنّت کے طریقے سے ہو اور اللہ کو ناراض نہ کیا جاۓ؛ تاکہ آگے کی زندگی سکون اور برکت سے گزرے، اگر شادی میں اللہ کو ناراض کردیا تو آگے کی زندگی بھی سکون سے نہیں گزرے گی،  لڑکی والے کہہ رہے ہیں کہ ہم اتنے اسلامی نہیں ہیں، ہماری خواتین بازار بھی جاتی ہیں، ایک دن خوشی کا ہے اس میں بھی ایسے الگ الگ ہوجائیں تو اچھا نہیں لگتا،  لڑکے  کی ضد کرنے پر لڑکی والوں نے کہا کہ ہم پھر سوچیں گے، مطلب یہ کہ ختم کردیں گے،  اب ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟  اسٹیج پر چلے جانا چاہیے یا رشتہ ختم ہونے دینا چاہیے؟  نکاح برات سے پہلے مسجد میں ہوچکا ہوگا۔

جواب

دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں غمی و خوشی ہر طرح کے حالات کے لیے مستقل احکامات دیے گئے ہیں ، اور ایک مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی اپنے دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ اپنی ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے، چنانچہ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا وغیرہ یہ سب ناجائز امور ہیں، اور جن تقریبات میں ناجائزاور گناہوں کا ارتکاب ہو وہ خلافِ شرع ہیں۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں لڑکی  والوں کا محرم  و  نامحرم کی تمیز کیے بغیر مخلوط اجتماع پر اصرار کرنا اور   دلہےکو مخلوط اجتماع والے اسٹیج پر بیٹھنے پر مجبور کرنا غیرشرعی کام کے  لیے اصرار  کرنا ہے،  جسے ماننا اور پورا کرنا جائز نہیں، اور اب  جب کہ نکاح ہوچکا ہے تو  بجائے رشتہ ختم کرنے کے  فریقین کو چاہیے کہ اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کو  اپنی عارضی اور  چند لمحات کی خوشی پر ترجیح دیتے  ہوئے شادی کی تقریب منعقد کریں اور اسےغیر شرعی امور سے پاک  رکھیں، اور لڑکی والوں کو حکمت کے ساتھ سمجھا دیا جائے۔  چوں کہ  نکاح ہوچکا ہے، اور لڑکی  شرعی طور پر اس لڑکے کی بیوی بن چکی ہے؛ اس لیے اگر اسٹیج پر صرف لڑکے کی محرم خواتین ہوں اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ  جائے  اور باقی مردوں اور خواتین کی نشستیں پردے کے اہتمام کے ساتھ جدا جدا ہوں تو اس کی اجازت ہوگی، تاہم غیر شرعی رسموں سے اجتناب کیا جائے۔ 

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 347):

"وفي التتارخانية عن الينابيع: لو دعي إلى دعوة فالواجب الإجابة إن لم يكن هناك معصية ولا بدعة، والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم يقيناً أن لا بدعة ولا معصية اهـ والظاهر حمله على غير الوليمة لما مر ويأتي، تأمل (قوله: وثمة لعب) بكسر العين وسكونها والغناء بالكسر ممدوداً السماع ومقصوراً اليسار (قوله: لا ينبغي أن يقعد) أي يجب عليه، قال في الاختيار: لأن استماع اللهو حرام، والإجابة سنة، والامتناع عن الحرام أولى اهـ وكذا إذا كان على المائدة قوم يغتابون لا يقعد فالغيبة أشد من اللهو واللعب تتارخانية (قوله: ولو على المائدة إلخ) كان عليه أن يذكره قبيل قول المصنف الآتي: وإن علم كما فعل صاحب الهداية، فإن قول المصنف: فإن قدر إلخ فيما لو كان المنكر في المنزل لا على المائدة ففي كلامه إيهام لا يخفى (قوله: بعد الذكرى) أي تذكر النهي ط".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں