بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھانا


سوال

 ایک شخص ایک ایسے تعلیمی ادارے میں پڑھاتا ہے جہاں مخلوط تعلیمی نظام ہے، لیکن وہ بلا ضرورت خواتین سے گفتگو کرنے سے گریز کرتا ہے  اور حتی الامکان احتیاط کی کوشش کرتا ہے ، اسے ایک دوسرے تعلیمی ادارے میں ملازمت ملی، جہاں مخلوط تعلیمی نظام تو نہیں تھا لیکن کام کی بہت زیادتی  تھی اور ذہنی دباؤ تھا ، جس کی وجہ سے وہاں بھی اسے اطمینان نہیں ہوا اور وہ پھر دوبارہ اسی مخلوط تعلیمی ادارے میں آ گیا ، اب وہ اس مخلوط تعلیمی ادارے میں رہتے ہوئے کوئی  بہتر نوکری کی تلاش میں ہے ، کیا اس شخص کا یہ طریقہ کار درست ہے ؟ یا اسے سب مشکلات گوارا کر کے اس دوسرے تعلیمی ادارے میں چلے جانا چاہیے  جہاں مشکلات اور ذہنی دباؤ تو ہے لیکن وہاں مخلوط تعلیمی نظام نہیں؟

جواب

صورت مسؤلہ میں مذکورہ  شخص  جس  ادارے میں پڑھا رہاہو تو پہلے وہ کوشش  کرے کہ اس ادارے میں شرعی ماحول قائم ہوجائے، اگر اس کی آواز مؤثر نہ ہو تو دوسرے غیر مخلوط تعلیمی نظام والے ادارے میں تدریس کرے  ،کام کی زیادتی اور ذہنی دباؤ  کی وجہ سے جو پریشانی ہے اس پر  حتی الامکان صبر   کرے اور دیگر  اداروں میں  نوکری تلاش کرتا رہے ،البتہ اگر کام کی زیادتی اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے  مذکورہ غیر مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھانا ناممکن ہورہا ہو تو جب تک متبادل انتظام نہ ہو اپنی ذات کی حد تک شرعی احکام(نظروں کی حفاظت، بلاضرورت بات چیت اور ہنسی مزاح سے اجتناب وغیرہ)  کی رعایت کرتے ہوئے  مخلوط تعلیمی نظام والے ادارے میں  تدریس کرے اور  دیگر غیر مخلوط تعلیمی اداروں میں  نوکری تلاش کرے ۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى، وبه بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة فتنبه.

(قوله وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل - عليها السلام - بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ.

وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اهـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة (قوله في نقل القهستاني) أي عن بيع المبسوط (قوله زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة على الراجح."

(كتاب الحظر والإباحة.فصل في النظر والمس.رد المحتار6/ 369ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں