بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مخلوط تعلیمی ماحول میں تعلیم حاصل کرنا


سوال

میں موجودہ وقت میں ایک غیر مخلوط تعلیمی ادارے"انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد" میں بی ایس سی کی تعلیم حاصل کررہا ہو ں ،مگر اب کچھ وجوہات کی وجہ سے اپنی فیلڈ تبدیل کرنا چاہتا ہوں،مگر میرے علم کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی غیر مخلوط یونیورسٹی یہ ڈگری نہیں دے رہی، میں "آرٹیفیشل انٹیلیجنس" میں ڈگری حاصل کرنا چاہتا ہوں،یہ ایک بہت اہم فیلڈ ہے، جس سے امت کو مستقبل میں بہت فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے ، جب کہ مجھے ان شاء اللہ فتنوں میں مبتلا ہونے کی امید نہیں،اور جو دیگر فتنے موجود ہیں، جس طرح کے لبرل ازم اور الحاد تو ان کے تعارفی رد سے میں واقف ہوں،میرا یہ ارادہ بھی ہے کہ میں دین کی تعلیم حاصل کروں ،تو ان شاء اللہ علماء سے وابستگی بھی رہے گی،تو کیا میں کسی مخلوط یونیورسٹی میں علم حاصل کرسکتا ہوں؟

میں نے کچھ علماء سے سنا تھا کہ تعلیم کا معیار اچھا نہ ہونے کی وجہ سے مخلوط اداروں میں پڑھا جا سکتا ہے، ورنہ دینی طبقے کے لوگ پیچھے رہ جائیں گے، تو کیا میری صورت حال میں بھی کوئی ایسی شق لگ سکتی ہےکیوں کہ اور کوئی غیر مخلوط یونیورسٹی یہ تعلیم نہیں دے رہی،اگرچہ مجھے فتنے میں مبتلا ہونے کا ان شاء اللہ اندیشہ نہیں،مگر میں ابھی تک اپنے آپ کو پوری طرح سب گناہوں سے پاک نہیں کر پایا اور مجھے دین پر آئے ہوئے ابھی دو سال ہی ہوۓ ہیں اور میں شادی شدہ بھی نہیں ہوں۔

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ ادارے ہی مین مخلوط ماحول میں ہی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہوتو  درج ذیل امور کا لحاظ کریں:

1-کسی بھی اجنبی عورت خواہ ٹیچر ہو یا طالبہ ، کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہ رکیں، اور نہ ہی اکیلے ملاقات کریں۔

2- خواتین کے چہرے کی طرف نگاہ نہ کی جائے۔ 

3-نیز لڑکیوں کے ساتھ پڑھائی کرنے کے بجائے صرف لڑکوں کے ساتھ مل کر ہی پڑھائی کریں۔

4-  مجبوراً کبھی کسی غیر محرم عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائےتو  بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت بات کرنا جائز ہے،  بلاضرورت جائز نہیں،جوان لڑکے اور لڑکیوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنے کی بھی اجازت نہیں،اسی طرح  ہنسی مزاح کرنے یا اس کا جواب دینے کی کوئی گنجائش نہیں، سخت گناہ ہے،  بلاضرورت دیکھنا بھی جائز نہیں حتیٰ الامکان حفاظتِ نظر بھی ضروری ہے۔   

فتاوی شامی میں ہے:

" إلامن أجنبیة فلایحل مس وجهها وکفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ إلی قوله: وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبیة حرام … ثم رأیت في منیة المفتي مانصه: الخلوة بالأجنبیة مکروهة وإن کانت معها أخری کراهة تحریم ."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة مناسبته ظاهرة،‌‌فصل في النظر والمس،٣٦٧/٦،ط: دار الفكر)

فیہ ایضاً:

"وفي الشرنبلالیة معزیًا للجوهرة: و لایکلم الأجنبیة إلا عجوزًا عطست أوسلمت فیشمتها و یرد السلام علیها و إلا لا، انتهی. وبه بان أن لفظة لا في نقل القهستاني ویکلمها بما لایحتاج إلیه زائدة، فتنبه.(قوله:زائدة) ببعده قوله في القنیة رامزًا: ویجوز الکلام المباح مع امرأَة أجنبیة اهـ و في المجتبی رامزاً: و في الحدیث دلیل علی أنه لا بأس أن یتکلم مع النساء بما لایحتاج إلیه، و لیس هذا من الخوض في ما لایعنیه، إنما ذلك في کلام فیه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول علی العجوز، تأمل. و تقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة علی الراحج، و مرالکلام فیه فراجعه."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة مناسبته ظاهرة،‌‌فصل في النظر والمس،٣٦٩/٦،ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144410100240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں