بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مخلوقات میں سب سے پہلے ابلیس نےقیاس کیا؟


سوال

1)  کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ مخلوقات میں سے سب سے پہلے ابلیس نے قیاس سے کام لیا تھا جب اس نے خود کو آدم علیہ السلام سے افضل تصور کیا تھا،  اور اپنے اس قیاس کی بنیاد یہ رکھی تھی کہ  آگ مٹی سے افضل ہےاور وہ آگ سے تخلیق شدہ ہے جب کہ آدم علیہ السلام مٹی سے ؟

2)  میں نے ایک مفتی صاحب کا یہ فتویٰ بھی پڑھا ہے کہ قیاس حرامِ ابدی ہےجو زندگی میں قیاس کی مدد لے کر شرعی مسائل و عقائد میں اصول و تشریحات کرے گا وہ روز حشر ابلیس کی امامت میں کھڑا ہو گا۔ مندرجہ بالا سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ بعض مفسرین نے اگرچہ ایسے آثار نقل کیے ہیں  کہ سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا لیکن خود قرآن مجید میں ابلیس کے قیاس سے بھی پہلے فرشتوں کے قیاس کرنے کا اشارہ ملتا ہے،سورۃ بقرہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرشتوں کے ساتھ مکالمہ  میں فرشتوں نے یہ سوال کیا تھا کہ اے ہمارے رب! کیا تو اس زمین میں ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو اس میں فساد اور خون ریزی کریں گے، اس مقام پر مفسرین کرام نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ فرشتوں کو یہ بات کس طرح معلوم ہوئی کہ آئندہ پیدا ہونےوالی مخلوق زمین میں فساد و خون ریزی کی مرتکب ہوگی۔ اس کے مختلف جوابات میں سے ایک جواب یہ ہے کہ فرشتوں نے اس نئی مخلوق کو "جن" پر قیاس کیا تھا کہ چوں کہ زمین پر انسان سے پہلے جن آباد تھے اور انہوں نے زمین میں فساد برپا کیا تھا تو یہ نئی مخلوق بھی زمین پر فساد اور خون ریزی کرے گی، یہ توجیہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور کلبی رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا جواب یہ  دیا کہ فرشتوں کو انسان کے پیدائشی عناصرِ اربعہ( آگ پانی ہوا مٹی)کا علم ہو گیا تھا اور اس سے انہوں نے یہ جان لیا کہ اس مخلوق میں شہوت اور غضب کے جذبات پیدا ہوں گے جو لازمی طور پر فساد اور خون ریزی پر منتج ہوں گے، اس توجیہ میں بھی قیاس کا عنصر غالب ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ  بات اپنے اطلاق کے ساتھ درست نہیں ہے کہ سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا، البتہ تفسیرِ  بسیط  میں علامہ ابو الحسن واحدی رحمہ اللہ نے سورۃ اعراف کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا  اور اپنے قیاس کی وجہ سے کافر ہوا، پس جس شخص نے بھی دین میں  اپنی رائے سے کسی چیز کو قیاس کیا تو اللہ تعالیٰ اسےابلیس کے ساتھ ملا دے گا، لیکن موصوف رحمہ اللہ نے اس اثر کو نقل کرنے کے بعد اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ قیاس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ قیاس ہے جو نص کی مخالفت میں کیا جائے یعنی نص کے ہوتے ہوئے اس کی مخالفت میں قیاسی دلائل گھڑے جائیں، اس قسم کا قیاس مردود ہےاور ابلیس نے اسی طرح کا قیاس کیا تھا کہ باری تعالیٰ نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو اس نے مقابلے میں قیاس کیا ۔

ایک وہ قیاس ہے جو نص کی غیر موجودگی میں ہو اور نصوص قطعیہ سے مستنبط اصول کے موافق ہو تو یہ قیاس مقبول ہے جیسا کہ علماء غیر منصوص مسائل میں قیاس کرتے ہیں۔

تفسیرِ بسیط کی مکمل عبارت درج ذیل ہے:

"وقوله تعالى:{خلقتني من نار وخلقته من طين}، قال ابن عباس: (كانت الطاعة أولى بإبليس من القياس، فعصى (ربه وقاس، وأول من ‌قاس ‌إبليس فكفر بقياسه، فمن ‌قاس الدين بشيء من رأيه قرنه الله مع ‌إبليس) 

فإن قيل: أليس العلماء يقيسون في مسائل، قيل: القياس قياسان: قياس في مخالفة النص فهو مردود كقياس إبليس، وقياس يوافق الأصول عند عدم النص فهو مقبول كقياس العلماء يقيسون ما لا نص فيه بما فيه نص ودليل".

(سورة الأعراف، 9/ 45، ط:عمادة البحث العلمي)

اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جو قیاس حجت ہے وہ یہی دوسری قسم ہے ، لہذا  قیاس کی صحت کی  شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس مسئلہ میں قیاس کیا جا رہا ہے وہ مسئلہ منصوصی نہ ہو یعنی اس میں کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو، چنانچہ اصولِ فقہ کی مشہور کتاب اصول الشاشی میں قیاس کے صحیح ہونے کی شرائط میں ایک شرط یہ ذکر کی ہے کہ فرع یعنی جس مسئلہ پر قیاس کے ذریعہ کوئی حکم لگایا جا رہا ہے وہ منصوص علیہ نہ ہو یعنی اس بارے میں نصوص میں کوئی حکم وارد نہ ہو۔

اصول الشاشی میں ہے:

"فصل

شروط صحة القياس خمسة: أحدها: أن لايكون في مقابلة النص. و الثاني: أن لايتضمن تغيير حكم من أحكام النص. و الثالث: أن لايكون المعدى حكمًا لايعقل معناه. و الرابع: أن يقع التعليل لحكم شرعي لا لأمر لغوي. و الخامس: أن لايكون الفرع منصوصًا عليه."

(‌‌فصل شروط صحة القياس خمسة، ص: 314، ط:دار الكتاب العربي)

حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ ا للہ   ’’الکلام المفید في إثبات التقلید‘‘ میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اس قیاس سے نص کے مقابلے میں قیاس مراد ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم فرشتوں کے ساتھ ابلیسِ لعین کو بھیإِذْ أَمَرْتُكَکے الفاظ سے سجدہ کرنے کا تھا  اور  اس نے اللہ تعالیٰ کے اس صریح حکم کے مقابلہ میں أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍسے قیاسِ فاسد کرکے خود کو حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر سمجھا اور ایسے قیاس کے باطل ، فاسد اور مردود ہونے میں کیا شک  اور شبہ ہو سکتا ہے جو نص کے مقابلہ میں ہو۔"

("اول من قاس ابلیس" کی حقیقت، ص:133، ط:مکتبہ صفدریہ)

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ابلیس بارگاہِِ عالی سے قیاس کی وجہ سے مردود نہیں ہوا ، بلکہ اپنے تکبر، عناد  اور  حکم عدولی کے سبب راندۂ درگاہ ٹھہرا۔

  اور  نہ ہی اس بات کی کوئی حقیقت ہے کہ شرعی احکام میں قیاس سے کام لینے والا بروزِ محشر ابلیس کی امامت میں کھڑا ہوگا، انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی عصمت پر جمہورِ امت کا اجماع ہے اور خود خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے قیاس کرنا ثابت ہے، صحیحین میں حضرت عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ عنہما کی  روایت میں ہے  کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کرسکیں اور ان کا انتقال ہوگیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے  حج کرو۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ 

اس حدیث میں مذکورہ خاتون کےسوال پر آنحضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ کے حق کو بندہ کے حق پر قیاس کیا ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌ابن عباس رضي الله عنهما: «أن امرأة من جهينة، جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: إن أمي نذرت أن تحج، فلم تحج حتى ماتت، أفأحج عنها؟ قال: نعم، حجي عنها، أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضية؟ اقضوا الله، فالله أحق بالوفاء»".

 (‌‌‌‌كتاب الحج، باب الحج والنذور عن الميت والرجل يحج عن المرأة، 3/ 18 ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

فتح الباری میں ہے:

"قوله أرأيت إلخ فيه مشروعية القياس و ضرب المثل ليكون أوضح و أوقع في نفس السامع و أقرب إلى سرعة فهمه، و فيه تشبيه ما اختلف فيه و أشكل بما اتفق عليه."

(4/ 66، ط: دار المعرفة)

تفسیرِ کبیر میں ہے:

"أن إخبار الملائكة عن الفساد وسفك الدماء، إما أن يكون حصل عن الوحي أو قالوه استنباطا وظنا، قلنا اختلف العلماء فيه، فمنهم من قال: إنهم ذكروا ذلك ظنا ثم ذكروا فيه وجهين: الأول: وهو مروي عن ابن عباس والكلبي أنهم قاسوه على حال الجن الذين كانوا قبل آدم عليه السلام في الأرض. الثاني: أنهم عرفوا خلقته وعرفوا أنه مركب من هذه الأخلاط الأربعة فلا بد وأن تتركب فيه الشهوة والغضب فيتولد الفساد عن الشهوة وسفك الدماء عن الغضب".

(سورة البقرة، 2/ 392، ط: دار إحياء التراث العربي)

مدارك التنزيل وحقائق التاويل المعروف بہ التفسیر النسفی میں ہے:

"وقول نافى القياس أول من قاس إبليس قياس على أن القياس عند مثبته مردود عند وجود النص وقياس إبليس عناد للأمر المنصوص".

(سورة الأعراف، 1/ 557،ط: دار الكلم الطيب)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں