بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان زمین کے بدلے فروخت ہونے کی صورت میں شفعہ میں کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟


سوال

ہمارے گھر کے ساتھ متصل گھر ہے، اس گھر کے مالک نے اپنا مکان چھ سال قبل ایک  شخص پر بیچا جو کہ دور رہتا تھا اور  اس مکان کی خرید وفروخت خفیہ طور پر ہوئی تھی،  ہم میں سے کسی کو اس  بات کا علم نہیں تھا،  اب چند دن پہلے میرے والد محترم کو اس بات کا پتہ چلا تو  انہوں نے فوراً عدمِ رضامندی کا اظہار کردیا  اور مکان کے خریدار کے پاس گئے، اور اسے کہا کہ میں اس مکان پر حق ِ شفعہ کا دعویٰ کرتا ہوں، خریدار نے کہا کہ یہ مکان  میں نے ایک زمین کے بدلہ لیا ہے، جس زمین کی قیمت 16 لاکھ روپے ہے،  اگر آپ مجھے 16 لاکھ روپے دیتے ہو تو ٹھیک ہے، جب کہ مذکورہ مکان کی قیمت 4 لاکھ روپے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ  اگر میرے والد یہ  مکان خریدتے ہیں  تو 16 لاکھ روپے دینے ہوں گے یا مکان کی قیمت جو کہ 4 لاکھ روپے ہے وہ دینے ہوں گے؟

جواب

صورت ِ مسئوله ميں آپ كے والد كو  اپنے گھر سے متصل گھر  کے فروخت ہونے کا جس مجلس ميں   علم ہوا  تو اسی  وقت میں  اگر انہوں نے  عدمِ رضامندی کا اظہار کرنے کے  ساتھ اس مکان  میں شفعہ  کا مطالبہ کیا  اور بعد میں خریدار کے پاس جاکر بھی شفعہ کا دعویٰ کیا تو  اس صورت میں ان کو شفعہ کا حق حاصل  ہے۔

شفعہ کا حق ملنے کی صورت میں  اگر واقعۃ ً  خریدار نے  مذکورہ مکان ، اپنی کسی زمین کے عوض خریدا تھا  تو خریدوفروخت کے وقت اس زمین کی  جو قیمت تھی، شفیع (سائل کے والد)  وہ رقم ادا کرکے  مذکورہ مکان  حقِ شفعہ کے ذریعے لے سکے گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ويطلبها الشفيع في مجلس علمه) من مشتر أو رسوله أو عدل أو عدد (بالبيع) وإن امتد المجلس كالمخيرة هو الأصح درر وعليه المتون، خلافا لما في جواهر الفتاوى أنه على الفور وعليه الفتوى  (بلفظ يفهم طلبها كطلبت الشفعة ونحوه) كأنا طالبها أو أطلبها (وهو) يسمى (طلب المواثبة) أي المبادرة، والإشهاد فيه ليس بلازم بل لمخافة الجحود (ثم) يشهد (على البائع لو) العقار (في يده أو على المشتري وإن) لم يكن ذا يد لأنه مالك أو عند العقار (فيقول اشترى فلان هذه الدار وأنا شفيعها وقد كنت طلبت الشفعة وأطلبها الآن فاشهدوا عليه، وهو طلب إشهاد) ويسمى طلب التقرير.

(قوله : بلفظ يفهم طلبها) متعلق بقوله يطلبها، والمراد أي لفظ كان، حتى حكى ابن الفضل: لو قال القروي شفعة شفعه كفى تتارخانية."

(6 / 224، كتاب الشفعة، باب طلب الشفعة، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(وإن) (اختلف الشفيع والمشتري في الثمن) والدار مقبوضة والثمن منقود (صدق المشتري) بيمينه لأنه منكر ولا يتحالفان (وإن برهنا فالشفيع أحق) لأن بينته ملزمة... (وفي الشراء بمثلي) ولو حكما كالخمر في حق المسلم ابن كمال (يأخذ بمثله، وفي) الشراء ب (القيمي بالقيمة) أي وقت الشراء (ففي بيع عقار بعقار يأخذ) الشفيع (كلا) من العقارين (بقيمة الآخر.

(قوله : في الثمن) أي في جنسه كقول أحدهما هو دنانير والآخر دراهم، أو قدره كقول المشتري بمائتين والشفيع بمائة أو صفته كاشتريته بثمن معجل وقال الشفيع بل مؤجل درر البحار (قوله والدار مقبوضة والثمن منقود) أي مقبوضة للمشتري والثمن منقود منه للبائع...الخ.

(قوله: بالقيمة) أي وقت الشراء لا وقت الأخذ بالشفعة كما في الذخيرة قهستاني (قوله يأخذ الشفيع) أي شفيع كل من العقارين."

(6 / 229، 231،كتاب الشفعة، باب طلب الشفعة، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101432

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں