بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان ادھار پر خرید کر آگے نقد فروخت کرنا


سوال

ایک شخص مثلا زید نے ایک مکان ادھار خریداتھا، ابھی اس نے اسکی قیمت ادا نہیں کی تھی کہ اس سے پہلے ہی اس نے دوسرے شخص کے ہاتھ وہ مکان فروخت کردیا، توکیا زید کا ادھار خریدے ہوئے مکان کو دوسرے شخص کے ہاتھ نفع کے ساتھ  فروخت کرنا جائز ہے؟

نوٹ:زید نے ادھار مکان خرید کر اس پر قبضہ بھی کیا تھا۔

جواب

صورتِِ مسئولہ میں زید کا ادھار مکان خرید کر اسے آگے دوسرے کےہاتھ  نفع کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"ومن اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض."

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، فصل اشترى شيئا مما ينقل ويحول، ج:6، صفحه: 510-511، ط: دار الفكر)

تبين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

 "لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

( کتاب البیوع، باب التولیة، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج:4، صفحه:80، ط:المطبعة الكبرى الأميرية القاهرة) 

شرح المجلہ لخالد الاتاسی میں ہے:

"للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقاراً.......وإن كان منقولاّ فلا."

(کتاب البیوع، الباب الرابع فی بیان المسائل المتعلقة بالتصرف...... الخ، الفصل الأول، ج:2، صفحه: 173-174، المادۃ:153، ط:حمص) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں