بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان پر مزید تعمیر کرنے کے بعد تعمیر کا خرچہ وصول کرنا


سوال

۱) ۲۰۱۳ء میں ہمار ی والدہ کا انتقال ہوا ،۲۰۱۵ء میں والد صاحب کا انتقال ہوا ،ہمارے والدین کے ورثاء میں ہم تین بھائی اور تین بہنیں ہیں ،ہماری والدہ کا ایک منزلہ گھر تھا،اس پر میں اور تمام ورثاء کی اجازت سے مزید دو منزلیں تعمیر کیں ،اور اس میں دو بھائیوں نے بھی اس گھر کی مرمت میں کچھ پیسے لگائے،اب ہم سب ورثاء اس گھر کوشرعی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتے ہیں ،تو کیا تقسیم سے قبل ہم اتنے پیسے گھرکی قیمت میں سے وصول  کریں گے جو ہم نے لگائے؟

۲) ۲۰۱۵ ء میں مذکورہ گھر کی قیمت  ۶۵ لاکھ روپے تھی اور میں نے ۱۵ لاکھ روپے لگائے،اب اس کی قیمت تقریبا ً۸۰لاکھ روپے ہوگئی ہے،اُس وقت ۱۵ لاکھ روپے گھر کی قیمت کے تقریباً ۲۰ فیصد بن رہے تھے،تو آج بھی جو قیمت ہوگی مجھے اس کا ۲۰ فیصد ملے گایا وہی اصل رقم  ۱۵ لاکھ روپے مجھے ملیں گے؟

وضاحت:تعمیر  اور مرمت کرواتے   وقت یہ طے ہوا تھا کہ جتنی فی صد رقم میں ابھی لگا رہا ہوں اتنا ہی فی صد مکان فروخت کرتے وقت ہرایک اتنے فیصد حصہ وصول کریں گے،اور تمام بھائی بہن اس پر راضی تھے۔مذکورہ مکان والد  صاحب نے سعودیہ سے رقم بھیجی تھی اور والدہ کے نام خریدا تھا،نیز موت تک اسی مکان میں رہائش پذیر رہے۔

جواب

۱،۲):صورتِ مسئولہ میں سائل نے والدین  کے انتقال کے بعد مذکورہ  ایک منزلہ گھر پر  مزید دو منزلیں تعمیر کروائیں اور تعمیر کرواتےوقت  سب کے ساتھ یہ طے ہوا تھا كہ تعمير پر جتنے  فیصد  رقم   كل  مکان کی قيمت كے نسبت سے خرچ ہوئی ہے ،مکان کے فروخت کرتے وقت اتنے فیصد رقم وصول کی جائے گی ، توایسی صورت میں سائل نے جو رقم(۱۵ لاکھ ) تعمیر پر لگائی وہ معاہدے کی رو سے قرض ہے،اور قرض کی رقم جتنی لگائی جائے واپس کرتے ہوئے اتنی ہی رقم وصول کی جاتی ہے ،اس پر زیادہ رقم لینا شرعاً ناجائز ہے،لہٰذا سائل مکان فروخت ہونے کے بعد وراثت کی تقسیم سے پہلے  صرف لگائی گئی رقم (۱۵ لاکھ) کا حق دارہوگا، پھر اس کے بعد وراثت کے حصے کا حق دار ہوگا، اور سائل کے جس بھائی نے اس مکان کی مرمت میں جتنی رقم لگائی وہ بھی  اتنی ہی رقم کے حق دار ہوں گے ،کل مکان کی مالیت بڑھنے کی وجہ سے سائل اور اس کی بھائیو ں کی طرف سے اس مکان میں لگائی گئی رقم سے  زیادہ لینا جائز نہیں ۔

بدائع الصنائع میں ہے: 

"وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية".

(كتاب القرض ،فصل في حكم القرض ،ج:7،ص:396،ط:رشيدية)

"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام " میں ہے:

"إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: الاحتمال الأول - أن يكون المعمر صرف بإذن وأمر الشريك الآخر من ماله قدرا معروفا وعمر الملك المشترك للشركة أو أنشأه مجددا فيكون قسم من التعميرات الواقعة أو البناء ملكا للشريك الآمر ولو لم يشترط الشريك الآمر الرجوع على نفسه بالمصرف بقوله: اصرف وأنا أدفع لك حصتي من المصرف. وللشريك المأمور الذي عمر الرجوع على شريكه بحصته أي بقدر ما أصاب حصته من المصرف بقدر المعروف يعني إذا كان الملك مناصفة فيأخذ منه نصف المصرف وإذا كان مشتركا بوجه آخر فيأخذ المصرف على تلك النسبة".

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة ويحتوي على فصلين، المادة :١٣٠٩، ج:3،ص:310،ط:دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100925

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں