کسی نے ایک کروڑ (10000000) پیسہ رکھا گھر خرید نے کے لیے اور وہ پیسہ گھر کے مالک کو دیکھایا،لیکن مالک کو ابھی تک نہیں دیا، اب اس پیسہ پر زکوۃ لازم ہو گی یا نہیں؟
واضح رہے کہ زکوۃ ہر ایسی رقم پر واجب ہو جاتی ہے جو بنیادی اور ماہانہ ضروری اخراجات (راشن اور یوٹیلیٹی بل وغیرہ) کے علاوہ ہو ، خواہ وہ گھر لینے کی نیت سے رکھی ہو یا کسی دوسری نیت سے، ایسی رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو سال پورا ہو جانے پر اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہو گی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص پر ایک کروڑ روپے کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہو گی، لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ مکان کا سودا نہ ہوا ہو، اگر مکان کا سودا ہو چکا ہو اور مذکورہ شخص کے ذمہ پر رقم کی ادائیگی لازم ہو چکی ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص مقروض کہلائے گا اور جتنی رقم واجب الاداء ہو گی اُتنی رقم کی زکوۃ کی ادائیگی لازم نہ ہو گی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها."
(کتاب الزکوۃ، جلد:2، صفحہ: 262، طبع: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408102156
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن