بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان کا نقصان ایڈوانس رقم سے کاٹنا جائز نہیں


سوال

 سوال نمبر#1۔ ایک شخص نے اپنا مکان 5 یا 10 برس پہلے تعمیر کیا اور اس کو یا کرائے پر دیا یا خود رہائش اختیار کی .اب اگر وہ 5 یا 10 برس سے زیادہ عرصہ بعد اس گھرکو کرائے پر اس شرط پر دے کہ اس گھر میں آپ (کرائے دار) کے رہتے ہوئے جو نقصان ہوگا اس کے پیسے میں اس ایڈوانس میں سے کاٹوں گا جو گھرکرائے پر لیتے ہوئے لیا تھا۔اب جب کے اس گھر کو بنے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا ہے اور اس میں موجود سامان میں وہ مضبوطی نہیں جو5 یا 10 برس پہلے تھی ۔

(الف)۔تو کیا اس شخص (مالک مکان) کا اس قسم کا معاہدہ کرنا صحیح ہے؟

(ب) اور مالک مکان کا ایڈوانس کے پیسوں میں سے پیسے کاٹنا جائز ہے؟

(ج)۔ اور کرائے دار پر مکان خالی کرتے وقت نقصان کا ضمان دینا لازم ہوگا؟

(د)۔اور اگر معاہدہ نہیں کیا تو مکان خالی کرتے وقت مالک مکان نقصان کے ضمان کا کرائے دار سے مطالبہ کر سکتا ہے؟

(ہ)۔ اور اگر مالک مکان مکان کرائے پر دیتے وقت نقصان کی وصول یابی کی شرط نہ لگائے اور مکان خالی کرتے وقت خود ہی ایڈوانس سے کاٹ لے تو یہ کرنا مالک مکان کے لئے جائز ہے؟؟

سوال نمبر#2۔ اگر کوئی شخص مخصوص قسم کے کپڑے کسی بزرگ کی محبت میں ایک درزی سےسلوائے اور اس (مشتری)کی طلب یہ ہے کہ کپڑے بالکل اسی طرح ہوں جس طرح فلاں بزرگ کے ہیں اس میں کوئی کمی نہ ہو۔ اب اگر درزی ان کپڑوں میں اس طرح کی کمی کرے کہ بظاہرتو وہ بالکل صحیح ہو، لیکن 100 فیصد ان بزرگ کے کپڑوں کی طرح نہ ہو۔

(الف)۔تو کیا اس کمی کی وجہ سے پیسوں میں کمی کی جاسکتی ہے؟

(ب)۔اور اگر درزی (بائع) کمی پر راضی نہ ہو تو بائع کے لیے یہ کرنا کیسا ہے؟؟ 

جواب

1.مالک مکان کے لئے کسی بھی صورت میں(چاہے اولا شرط لگائی ہو یا نہ لگائی  ہو) جائز نہیں کہ  مکان کی کمزوری کی وجہ سے جو اس میں نقصان  ہوجائے تو  ایڈوانس رقم سے اس کی کٹوتی  کرے، البتہ  اگر کرایہ دار    نے قصدا عمدا مکان کو کوئی نقصان پہنچایا تو مالک مکان  اس کے ضمان کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

2.درزی نے جو کمی  کی ہے ، اس کی وجہ سے  قیمت میں کمی کرنا اس پر لازم ہے،  درزی کے لئے پوری قیمت لینا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( ولا تملك المنافع بالإجارة الفاسدة بالقبض...........( تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكلما أفسد البيع ) مما مر ( يفسدها ) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه."

(باب الاجارۃ الفاسدۃ/ج:6/ص:45/ط:دارالفکر)

البحرالرائق میں ہے:

"بَابُ الْإِجَارَةُ الْفَاسِدَةِ وَالشُّرُوطُ التي تُفْسِدُهَا تَفْصِيلًا كَاشْتِرَاطِ تَطْيِينِ الدَّارِ وَمَرَمَّتِهَا أو تَعْلِيقِ بَابٍ عليها أو إدْخَالِ جِذْعٍ في سَقْفِهَا على الْمُسْتَأْجِرِ."

(باب الاجارۃ الفاسدۃ/ج:7/ص:311/ط:دارالمعرفہ)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ووجوب تسليم الأجر بعد حصول المقصود كما لو استأجر خياطاليخيط له ثوبا لا يلزمه إيفاء الأجر ما لم يفرغ من العمل ....... لأن العمل بحسبه يصير مسلما وإنما يجب تسليم الأجر عند تسليم ما يقابله."

(ج:15/ص:201/ط:دارالفکر)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وإن كان النعل غريباً فإن كان لا ينقص سيره، ولا يدخله عيب لو أعيد يؤمر بالإعادة، ولا يضمن شيئاً، وإن كان ينقص سيره، ويدخله عيب لو أعيد يضمن النقصان."

(الفصل الثالث فی مالایجب   الضمان   باستھلاکہ/ج:5/ص:388/ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144112201143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں