میرے والد نے دو شادیاں کی تھیں،پہلی بیوی سے دو بیٹیا ں تھیں ،اس کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی،جس سے پانچ بیٹے اور چھ بیٹاں ہوئیں،پہلی بیوی کا انتقال 1948ء میں ہوگیا تھا،اس کے بعد 2005ء میں پہلی بیوی سے ایک بیٹی کا انتقال ہوا،پھر 2009ء میں والد صاحب کا انتقال ہوا ،ان کے ورثاء میں ایک بیوہ(دوسری بیوی)،پانچ بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں،والد کے والدین پہلے انتقال کر گئے تھے،پھر دوسری بیوی سے ایک بیٹی(زینب)کا انتقال ہوا،اس کے ورثاء میں شوہر والدہ،پانچ بھائی اور پانچ بہنیں تھیں اور ایک علاتی بہن(باپ شریک) تھی،والد صاحب نے اپنے ذاتی پیسوں سے ایک مکان خریدا تھا،جو دوسری بیوی کے صرف نام پر تھا،آیا اس میں پہلی بیوی کی جو دو بیٹیاں تھیں،ان حصہ ہوگا یا نہیں؟والد صاحب کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ بھی بتادیں۔
صورتِ مسئولہ میں جب والد صاحب نے اپنے ذاتی پیسوں سے ایک مکان خریدا تھا، دوسری بیوی کے صرف نام پر کیا تھا،اس کو مالک نہیں بنایا تھا، تو مذکورہ مکان والد صاحب کی ملکیت شمار ہوکر ان کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا،والد مرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات)ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے تہائی حصہ میں سے اسے نا فذ کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو12240حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ(دوسری بیوی)کو1635حصے،ہر ایک بیٹے کو 1288حصے،پہلی بیوی کی زندہ بیٹی کو 630حصے،دوسری بیوی کی ہر ایک بیٹی کو644 حصے اور بیٹی(زینب) کے شوہر کو315 حصے ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت:12240/136/8۔۔والد
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||||||||||
17 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
1530 | 1260 | 1260 | 1260 | 1260 | 1260 | فوت | 630 | 630 | 630 | 630 | 630 | 630 |
میت:90/6۔۔بیٹی(زینب)۔۔ما فی الید:7
شوہر | والدہ | بھائی | بھائی | بھائی | بھائی | بھائی | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن |
3 | 1 | 2 | |||||||||
45 | 15 | 4 | 4 | 4 | 4 | 4 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 |
315 | 105 | 28 | 28 | 28 | 28 | 28 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو13.357 فیصد،ہر ایک بیٹے کو10.522 فیصد،پہلی بیوی کی زندہ بیٹی کو5.147 فیصد،دوسری بیوی کی ہر ایک بیٹی کو5.261 فیصد اور بیٹی زینب کے شوہر کو2.573 فیصد ملے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وتصح بإيجاب ك وهبت ونحلت وأطعمتك هذا الطعام ولو) ذلك (على وجه المزاح) بخلاف أطعمتك أرضي فإنه عارية لرقبتها وإطعام لغلتها بحر (أو الإضافة إلى ما) أي إلى جزء (يعبر به عن الكل ك وهبت لك فرجها وجعلته لك) لأن اللام للتمليك بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة۔۔۔"
(کتاب الھبۃ5/ 688،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304101000
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن