بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان بیوی کے نام پر کیا لیکن مالکانہ حقوق نہیں دیے نیز دو بطن کا مناسخہ


سوال

میرے والد نے دو شادیاں کی تھیں،پہلی بیوی سے دو بیٹیا ں تھیں ،اس کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی،جس سے پانچ بیٹے اور چھ بیٹاں ہوئیں،پہلی بیوی کا انتقال 1948ء میں ہوگیا تھا،اس کے بعد 2005ء میں پہلی بیوی سے ایک بیٹی کا انتقال ہوا،پھر 2009ء میں والد صاحب کا انتقال ہوا ،ان کے ورثاء میں ایک بیوہ(دوسری بیوی)،پانچ بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں،والد کے والدین پہلے انتقال کر گئے تھے،پھر دوسری بیوی سے ایک بیٹی(زینب)کا انتقال ہوا،اس کے ورثاء میں شوہر والدہ،پانچ بھائی اور پانچ بہنیں تھیں  اور ایک علاتی بہن(باپ شریک) تھی،والد صاحب نے اپنے ذاتی پیسوں سے ایک مکان خریدا تھا،جو دوسری بیوی کے صرف نام پر تھا،آیا اس میں پہلی بیوی کی جو دو بیٹیاں تھیں،ان حصہ ہوگا یا نہیں؟والد صاحب کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ بھی بتادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں  جب والد صاحب نے اپنے ذاتی پیسوں سے ایک مکان خریدا تھا،  دوسری بیوی کے صرف  نام پر کیا تھا،اس کو مالک نہیں بنایا تھا، تو مذکورہ مکان والد صاحب کی ملکیت شمار ہوکر ان کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا،والد مرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات)ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے  بعد،اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو  باقی  مال کے تہائی  حصہ میں سے  اسے  نا فذ کرنے کے بعد  باقی تمام ترکہ    منقولہ و غیر  منقولہ کو12240حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ(دوسری بیوی)کو1635حصے،ہر ایک بیٹے کو 1288حصے،پہلی بیوی کی زندہ بیٹی کو 630حصے،دوسری بیوی کی ہر ایک بیٹی کو644 حصے اور بیٹی(زینب) کے شوہر کو315 حصے ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:12240/136/8۔۔والد

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
1714141414147777777
153012601260126012601260فوت630630630630630630

میت:90/6۔۔بیٹی(زینب)۔۔ما فی الید:7

شوہروالدہبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبہنبہنبہنبہنبہن
312
45154444422222
31510528282828281414141414

یعنی فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو13.357 فیصد،ہر ایک بیٹے کو10.522 فیصد،پہلی بیوی کی زندہ بیٹی کو5.147 فیصد،دوسری بیوی کی ہر ایک بیٹی کو5.261 فیصد اور بیٹی زینب کے شوہر کو2.573 فیصد ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وتصح بإيجاب ك وهبت ونحلت وأطعمتك هذا الطعام ولو) ذلك (على وجه المزاح) بخلاف أطعمتك أرضي فإنه عارية لرقبتها وإطعام لغلتها بحر (أو الإضافة إلى ما) أي إلى جزء (يعبر به عن الكل ك وهبت لك فرجها وجعلته لك) لأن اللام للتمليك بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة۔۔۔"

 (کتاب الھبۃ5/ 688،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304101000

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں