ایک شخص نے مکان بنانے کے پیسے اکھٹے کیے ہوئے تھے اور اب وہ کُل پیسے آگے ٹھیکیدار کو دے دیے ہیں، ٹھیکیدار نے مکان کا کام شروع بھی کر دیا ہے تو اب آیا اس رقم پر بھی زکوۃ ہوگی یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے ٹھیکہ دار سے مکمل گھر بنانے کا معاہدہ کرلیا اور اس کی مد میں اس کو رقم بھی دے دی تو یہ پیشگی اجرت کے حکم میں ہے، اور یہ رقم آپ کی ملکیت سے نکل گئی ہے، اس لیے اس پر زکات لازم نہیں ہوگی۔
الفتاوى الهندية (1 / 181):
"رجل له ألف درهم لا مال له غيرها استأجر بها دارًا عشر سنين لكل سنة مائة فدفع الألف، و لم يسكنها حتى مضت السنون و الدار في يد الآخر يزكي الآجر في السنة الأولى عن تسعمائة، و في الثانية عن ثمانمائة إلا زكاة السنة الأولى، ثم سقط لكل سنة زكاة مائة أخرى، و ما وجب عليه بالسنين الماضية، و لا زكاة على المستأجر في السنة الأولى و الثانية بنقصان نصابه في الأولى و عدم تمامه في الثانية و يزكي في الثالثة ثلثمائة ثم يزكي لكل سنة مائة أخرى، و ما استفاد قبلها إلا أنه يرفع عنه زكاة السنين الماضية."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109201367
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن