بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان بنانے کے لیے رقم ٹھیکہ دار کے حوالہ کردینے کی صورت میں زکوٰۃ کا حکم


سوال

ایک شخص نے مکان بنانے کے  پیسے اکھٹے  کیے ہوئے تھے اور اب وہ کُل پیسے آگے ٹھیکیدار کو دے دیے ہیں، ٹھیکیدار نے مکان کا کام شروع بھی کر دیا ہے تو  اب آیا اس رقم پر بھی زکوۃ ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورتِ   مسئولہ میں اگر آپ نے ٹھیکہ دار سے مکمل گھر بنانے کا معاہدہ کرلیا اور  اس کی مد میں اس کو رقم بھی دے دی تو  یہ پیشگی اجرت کے حکم میں ہے، اور یہ رقم آپ کی ملکیت سے نکل گئی ہے، اس لیے اس پر  زکات لازم نہیں ہوگی۔

الفتاوى الهندية (1 / 181):

"رجل له ألف درهم لا مال له غيرها استأجر بها دارًا عشر سنين لكل سنة مائة فدفع الألف، و لم يسكنها حتى مضت السنون و الدار في يد الآخر يزكي الآجر في السنة الأولى عن تسعمائة، و في الثانية عن ثمانمائة إلا زكاة السنة الأولى، ثم سقط لكل سنة زكاة مائة أخرى، و ما وجب عليه بالسنين الماضية، و لا زكاة على المستأجر في السنة الأولى و الثانية بنقصان نصابه في الأولى و عدم تمامه في الثانية و يزكي في الثالثة ثلثمائة ثم يزكي لكل سنة مائة أخرى، و ما استفاد قبلها إلا أنه يرفع عنه زكاة السنين الماضية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں