ہمارے دوست کی دس مرلہ جگہ تھی ،اور اس میں گھر بنا ہوا تھا اس کو جب انہوں نے بیچا تو مشتری نے گھر دیکھا اور خرید و فروخت مکمل ہوئی اور مشتری کے نام رجسٹری کروائی گئی، اور انہوں نے مقررہ کردہ قیمت بائع کو دے دی، بعد میں پیمائش کرنے پر پتہ چلا کہ جگہ 21.5 فٹ کم ہیں، اب مشتری بائع سے تقاضا کر رہا ہے کہ جتنی جگہ کم ہے اتنی قیمت واپس کریں، کیا یہ عمل درست ہیں؟ اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں ۔
واضح رہے جب زمین اور دیگر مذروعی اشیا(پیمائش کے ذریعے بیچی جانے والی اشیا) کی بیع میں مبیع کی ایک متعین مقدار طے کی جائے اور اس مجموعہ کے عوض ایک مخصوص رقم متعین کرلی جائے ، اور اس سودے میں زمین کی قیمت کے بارے میں یہ طے نہ ہو کہ فی گز زمین یا فی فٹ زمین اتنے روپے میں ہے، بل کہ مجموعی اعتبار سے رقم طے کی گئی ہو اور خرید وفروخت کے بعد وہ چیز كم نكلے تو مشتری (خریدار )کو اختیار ہے چاہے تو اس چیز كو كل قيمت كے ساتھ خریدلے یا چھوڑ دےاور اگروہ چیز زیادہ نکلے تو وہ بھی مشتری کا حق ہوتا ہے بائع (فروخت کنندہ )کا نہیں ،اس لیے کہ پیمائش مبیع کا ایک وصف ہے اور قیمت اصل کے مقابلے میں ہوتی ہے وصف کے مقابلے میں نہیں ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے مذکورہ مکان خرید لیا، اور زمین کی خریداری کے وقت ٹوٹل پیمائش کی تعیین کی تھی ،اور زمین کی مجموعی قیمت طے کی گئی تھی فی فٹ کے اعتبار سے قیمت طے نہیں ہوئی تھی، اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں کچھ کمی ہے، تو سائل کو اختیار کہ اس پورے مکان کو اسی قیمت پر خرید لے یا مکان واپس کرکے اپنی رقم واپس لے لے، لیکن سائل کو یہ اختیار نہیں ہے کہ مکان اپنے پاس رکھ کر ، اس کمی کے بقدر رقم واپس لے لے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) المذروعات من الثوب والأرض والخشب وغيرها فإن سمى لجملة الذرعان ثمنا واحدا ولم يسم لكل ذراع منها على حدة بأن قال: بعت منك هذا الثوب على أنه عشرة أذرع بعشرة دراهم فالبيع جائز؛ لأن المبيع وثمنه معلومان ثم إن وجده مثل ما سمى لزمه الثوب بعشرة دراهم ولا خيار له، وإن وجده أحد عشر ذراعا فالزيادة سالمة للمشتري، وإن وجده تسعة أذرع لا يطرح لأجل النقصان شيئا من الثمن وهو بالخيار: إن شاء أخذه بجميع الثمن، وإن شاء ترك، فرق بينهما وبين المكيلات والموزونات التي ليس في تنقيصها ضرر والعدديات المتقاربة."
(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع، ج:5، ص:160، ط: دار الكتب العلمية)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"لو بيعت عرصة على أنها مائة ذراع بألف قرش فظهر أنها خمسة وتسعون ذراعا فالمشتري مخير إن شاء تركها وإن شاء أخذ تلك العرصة بألف قرش وإذا ظهرت زائدة أخذها المشتري أيضا بألف قرش فقط وكذا لو بيع ثوب قماش على أنه يكفي قباء وأنه ثمانية أذرع بأربعمائة قرش فظهر سبعة أذرع خير المشتري إن شاء تركه وإن شاء أخذ ذلك الثوب بأربعمائة قرش وإن ظهر تسعة أذرع أخذه المشتري بتمامه بأربعمائة قرش أيضا. كذلك لو بيعت عرصة على أنها مائة ذراع كل ذراع بعشرة قروش فظهرت خمسة وتسعين ذراعا ومائة وخمسة أذرع خير المشتري إن شاء تركها وإن شاء أخذها إذا كانت خمسة وتسعين ذراعا بتسعمائة وخمسين، وإذا كان مائة وخمسة أذرع بألف وخمسين قرشا وكذا إذا بيع ثوب قماش على أنه يكفي لعمل قباء وأنه ثمانية أذرع كل ذراع بخمسين قرشا فإذا ظهر تسعة أذرع أو سبعة أذرع كان المشتري مخيرا إن شاء ترك الثوب وإن شاء أخذه إذا كان تسعة أذرع بأربعمائة وخمسين وإن كان سبعة أذرع بثلاثمائة وخمسين قرشا."
(الكتاب الأول البيوع، الفصل الثالث في بيان المسائل المتعلقة بكيفية بيع المبيع، ج:1، ص:202، ط: دار الجيل)
تبيين الحقائق میں ہے:
"(ولو نقص ذراع أخذ بكل الثمن أو ترك وإن زاد فللمشتري ولا خيار للبائع) معناه إذا باع مذروعا وسمى جملة الذرعان ولم يسم لكل ذراع ثمنا ثم وجده ناقصا أخذه بكل الثمن، وإن شاء ترك إلى آخر ما ذكر؛ لأن الذراع وصف للمذروع فلا ينقسم الثمن على الأوصاف فيكون كل الثمن مقابلا بالعين كلها بخلاف الأول غير أنه إن وجده ناقصا يثبت له الخيار لفوات وصف مرغوب فيه مشروطا في العقد وإن وجده زائدا فهو له بذلك الثمن؛ لأن الوصف لا يقابله شيء من الثمن ولا خيار للبائع كما إذا شرط معيبا فوجده سليما وبالعكس وهو ما إذا شرط سليما فوجده معيبا للمشتري الخيار والدليل على أنه وصف أنه عبارة عن الطول والعرض ويجوز للمشتري أن يبيعه بعد القبض قبل أن يذرعه ولو كان قدرا لما جاز لاحتمال أن يزيد فيكون للبائع كما في المكيل والموزون."
(كتاب البيوع، ج:4، ص:6، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507102156
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن