کیا مکتب کے کسی ایسے طالب علم سے جو جدید حافظ ہے یا کچھ پارے حفظ كیے ہیں، اس سے برائے مشق فرض نمازوں میں امامت کروا سکتے ہیں؟
امامت کے لیے (خواہ فرض نماز کی ہو، یا تراویح، یا نفل کی) اما م کا بالغ ہونا شرعًا ضروری ہے، نابالغ کی امامت نا بالغ کے حق میں تو درست ہوتی ہے، بالغین کے حق میں درست نہیں ہوتی، لہذا اگر مذکورہ طالب علم بالغ ہو، اور امامت کے بنیادی مسائل سے واقف ہو، اور قرآن تجوید سے پڑھ سکتا ہو تو اس کو فرض نماز میں امام بنانا جائز ہوگا،بصورتِ دیگر اس کو نابالغ بچوں کا امام بناکر مشق کرادی جائے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 557):
"(قوله: ثم الأحسن تلاوةً و تجويداً) أفاد بذلك أن معنى قولهم أقرأ: أي أجود، لا أكثرهم حفظاً و إن جعله في البحر متبادراً، و معنى الحسن في التلاوة أن يكون عالمًا بكيفية الحروف و الوقف و ما يتعلق بها، قهستاني".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201258
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن