بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجذوب غوث ابدال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھے ؟


سوال

مجذوب ،غوث ابدال آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی تھے ،یا یہ اب کے دور میں ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اولیاء اللہ کی ایک قسم اہلِ تکوین ہے، جن کے ذمہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاحِ معاش، دنیاوی امور کی ترتیب، لوگوں سے مصیبتوں کو دور کرنے کا انتظام  وغیرہ خدمات سپرد کی جاتی ہیں۔(1) غوث، ابدال، اقطاب، اوتاد وغیرہ انہی کے مختلف درجات کے نام ہیں، ان کے احوال عموماً لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتے ،(2)  اور لوگوں کا دینی نفع بھی اولیاء اللہ کی اس قسم سے وابستہ نہیں ہے،قرآن و حدیث میں بھی ان کی جزئیات وتفصیلات مذکور نہیں ہیں، تاہم ائمہ کرام  کی تصریحات ہیں کہ دنیا کبھی ان سے خالی نہیں ہوتی(3) اور بعض آثار میں یہ صراحت  ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد دنیا کبھی ان سے خالی نہیں ہوئی ہے۔(4) جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ان کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام زمین کے اوتاد ہوتے تھے، جب نبوت کا سلسلہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر ختم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام سے زمین پر ابدال و اوتاد کا سلسلہ شروع فرمایا، ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ اہلِ زمین سے عذاب دور کرتے ہیں، (5) اس کے علاوہ متعدد صوفیاء کرام کی کتب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قطبیتِ کبریٰ، قطب الاقطاب کا مقام ثابت کیا گیا ہے، اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو أول أقطاب هذه الأمةلکھا ہےاور ان کے بعد خلفاء راشدین  رضی اللہ عنہم کے لیے بھی قطب کا درجہ ثابت کیا گیا ہے۔(6) بعض  مشایخ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے لیے یہ مقام ثابت کیا ہے۔ (7) دوسری طرف آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے دور میں حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کو قطب تکوین بھی کہا گیا ہے، مشہور محدث وصوفی ملا علی القاری رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے۔(8) الغرض چوں کہ ان کے احوال عموماً مخفی رہتے ہیں اس لیے ان  کی تعیین میں اختلاف قابلِ فہم ہے، تاہم ان سب سے مشترک طور پر اولیاء اللہ کی اس قسم کاوجود ثابت ہوتا ہے۔

باقی مجذوب اس شخص کو کہتے ہیں جس کی عقل کسی واردِ غیبی کی وجہ سے زائل ہو جائے، عقل زائل ہو جانے کے سبب وہ معذور ہوتے ہیں اور شریعت کے مکلف نہیں رہتے، ان کا وجود بھی کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔(9)

خلاصہ یہ ہے کہ مجذوب، غوث، ابدال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھے اور بعد کے ادوار میں بھی موجود ہیں۔


حوالہ جات:

(1) التکشف عن مہمات التصوف میں حکیم الامۃ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

"جاننا چاہیے کہ اولیاء اللہ کی دوقسمیں ہیں: ایک وہ جن کے متعلق خدمتِ ارشاد و ہدایت و اصلاحِ قلب و تربیتِ نفوس و تعلیمِ طرقِ قرب و قبول عند اللہ ہے اور یہ حضرات اہلِ ارشاد کہلاتے ہیں۔۔۔دوسرے وہ جن کے متعلق خدمتِ اصلاح و معاش و انتظامِ امورِ دنیویہ و دفعِ بلیات ہے کہ اپنی ہمتِ باطنی سے باذن الہی ان امور کی رستی کرتے ہیں، اور یہ حضرات اہلِ تکوین کہلاتے ہیں، جن کو ہمارے عرف میں اہلِ خدمت کہتے ہیں"۔

(تقسیمِ اولیاء باہلِ ارشاد و اہلِ تکوین، ص: 161، ط: سجاد پبلشرز لاہور)

شریعت و طریقت (قطب الارشاد و قطب التکوین، ص: 340، ط: مکتبہ الحق، ترتیب: مولانا محمد دین صاحب)

(2)حافظ سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب الحاوی للفتاویٰ میں ہے:

"وقد سترت أحوال القطب - وهو الغوث - عن العامة والخاصة غيرة من الحق عليه، غير أنه يرى عالما كجاهل، أبله كفطن، تاركا آخذا، قريبا بعيدا، سهلا عسرا، آمنا حذرا، وكشف أحوال الأوتاد للخاصة وكشف أحوال البدلاء للخاصة والعارفين، وستر أحوال النجباء والنقباء عن العامة خاصة وكشف بعضهم لبعض، وكشف حال الصالحين للعموم والخصوص؛ ليقضي الله أمرا كان مفعولا".

(الفتاوى الصوفية، الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال، 2/ 303، ط:دار الفكر)

كذا في مرقاة المفاتيح (كتاب الفتن، باب أشراط الساعة، 8/ 3443، ط: دار الفكر)

كذا في مجموعة رسائل ابن عابدين (إجابة الغوث ببيان حال النقباءالنجباء والأبدال والأوتاد والغوث، ص: 276/2، ط: سهيل أكيدمي)

(3)مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وقال الشيخ زكريا - رحمه الله - في رسالته المشتملة على تعريف غالب ألفاظ الصوفية: القطب، ويقال له الغوث هو الواحد الذي هو محل نظر الله تعالى من العالم في كل زمان، أي: نظرا خاصا يترتب عليه إفاضة الفيض واستفاضته، فهو الواسطة في ذلك بين الله تعالى وبين عباده، فيقسم الفيض المعنوي على أهل بلاده بحسب تقديره ومراده، ثم قال: الأوتاد أربعة: منازلهم على منازل الأركان من العالم، شرق وغرب وشمال وجنوب، مقام كل منهم مقام تلك الجهة.

قلت: فهم الأقطاب في الأقطار، يأخذون الفيض من قطب الأقطاب المسمى بالغوث الأعظم، فهم بمنزلة الوزراء تحت حكم الوزير الأعظم، فإذا مات القطب الأفخم، أبدل من هذه الأربعة أحد بدله غالبا، ثم قال: الأبدال قوم صالحون لا تخلو الدنيا منهم، إذا مات واحد منهم أبدل الله مكانه آخر، وهم سبعة".

(كتاب الفتن، باب أشراط الساعة، 8/ 3442، ط: دار الفكر)

ملا علی القاری رحمہ اللہ کے رسالہ المعدن العدنی فی فضل اویس القرنی میں ہے:

"وفي رواية أخرى بإسناد حسن عنه أنه عليه السلام قال: لن يخلو الأرض من أربعين رجلامثل خليل الرحمن فبهم يسقون وبهم ينصرون ما مات منهم أحد إلا أبدل الله تعالى مكانه آخر".

(ص: 67، دراسة و تحقيق: إبراهيم بن عبد الله الحازمي)

(4)الحاوی للفتاویٰ میں ہے:

" وأخرج الخلال عن إبراهيم النخعي قال: ما من قرية ولا بلدة إلا يكون فيها من يدفع الله به عنهم، وأخرج عن زاذان قال: ما خلت الأرض بعد نوح من اثني عشر فصاعدا يدفع الله بهم عن أهل الأرض، وأخرج الإمام أحمد في الزهد عن كعب قال: لم يزل من بعد نوح في الأرض أربعة عشر يدفع الله بهم العذاب".

(أيضاً، 2/ 302)

كذا في مجموعة رسائل ابن عابدين (270/2، أيضاً)

(5) امام غزالی رحمہ اللہ احیاء علوم الدین میں نقل فرماتے ہیں:

"وقال أبو الدرداء اعلم أن لله عبادا يقال لهم الأبدال خلف من الأنبياء هم أوتاد الأرض فلما انقضت النبوة أبدل الله مكانهم قوما من أمة محمد صلى الله عليه وسلم لم يفضلوا الناس بكثرة صوم ولا صلاة ولا حسن حلية ولكن بصدق الورع وحسن النية وسلامة الصدر لجميع المسلمين والنصيحة لهم ابتغاء مرضاة الله بصبر من غير تجبن وتواضع في غير مذلة وهم قوم اصطفاهم الله واستخلصهم لنفسه وهم أربعون صديقا أو ثلاثون رجلا قلوبهم على مثل يقين إبراهيم خليل الرحمن عليه السلام..."

(ربع المهلكات‌‌، كتاب ذم الكبر والعجب، 3/ 357، ط: دار المعرفة)

المعدن العدنی میں ہے:

"وعن أبي الدرداء رضي الله عنه إن الانبياء عليهم السلام كانوا أوتاد الأرض فلما انقطعت النبوة أبدل الله تعالى مكانهم قوما من أمة محمد صلى الله عليه وسلم يقال لهم الأبدال لم يفضلوا الناس بكثرة صوم ولا صلاة ولا تسبيح ولكن بحسن الخلق وبصدق الورع وحسن النية وسلامة قلوبهم لجميع المسلمين والنصيحة لله تعالى رواه الحكيم الترمذي من نوادر الأصول".

(ص: 71، أيضاً)

(كذا في الحاوي للفتاوي (2/ 302، أيضاً)

(6)مجموعہ رسائل ابن عابدین میں ہے:

"وفي شرح تائية سيدي الشيخ شرف الدين عمر بن الفارض لسيدي الشيخ عبد الرزاق القاشاني:... وأما قطب بالنسبة إلى جميع المخلوقات في عالمي الغيب والشهادة ولا يستخلف بدلا من الأبدال ولا يقوم مقامه أحد من الخلائق وهو قطب الأقطاب المتعاقبة في عالم الشهادة لا يسبقه قطب ولا يخلفه آخر وهو الروح المصطفوي صلى الله عليه وسلم المخاطب بقول لو لاك لما خلقت الأفلاك انتهى يعني لا يخلفه غيره في هذه المقام الكامل وأن خلفه فيما دونه كالخلفاء الراشدين".

(إجابة الغوث ببيان حال النقباءالنجباء والأبدال والأوتاد والغوث، ص: 265، ط: سهيل أكيدمي)

وفيه أيضاً: 

"وقد أقام صلى الله عليه وسلم في القطبية الكبرى مدة رسالته وهي ثلث وعشرين سنة على الأصح، واتفقوا على أنه ليس بعده أحد أفضل من أبي بكر الصديق رضي الله عنه وقد أقام في خلافته عن رسول الله صلي الله عليه وسلم سنتين ونحو أربعة أشهر وهو أول أقطاب هذه الأمة وكذلك مدة خلافة عمر وعثمان وعلي ومن بعدهم ".

(ص: 275، أيضاً)

 المعدن العدنی میں ہے:

"فالظاهر أنه عليه السلام قطب دائرة الوجود للسابقين اللاحقين في مقام الشهود ولا شك أن قطب الإرشاد لجميع الوجود في سائر البلاد ويكون هذه النسبة العلية والرتبة القطبية منتقلة إلى خلفائه الراشدية المهدية وهلم جر إلى من يكون الجامع بين المعالم الشرعية المعارف اللدنية".

(ص: 64، أيضاُ)

(7) مجموعہ رسائل ابن عابدین  میں ہے:

"وذهب التونسي من  الصوفية إلى أن أول من ‌تقطب بعده صلى الله عليه وسلم ابنته ‌فاطمة، ولم أر له في ذلك سلفا. وأول من ‌تقطب بعد عصر الصحابة فعمر بن عبد العزيز".

(265/2، أيضاً)

كذا في حاشية شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية» (‌‌خصائص أمته صلى الله عليه وسلم، ‌‌تابع المقصد الرابع: في معجزاته صلى الله عليه وسلم الدالة على ثبوت نبوته، 7/ 479، ط:دار الكتب العلمية)

(8) المعدن العدنی میں ہے:

"وأما قطب الأبدال في زمانه عليه السلام فالذي في ظني أنه أويس القرني".

(ص:64، أيضاً)

قطب ارشاد و قطب تکوین کے فرق کے لیے ملاحظہ ہو: حوالہ نمبر 1

(9)  القول الجلیل (ملفوظاتِ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ) میں ہے:

" فرمایا مجنون وہ ہے کہ جس کی عقل اخلاطِ فاسدہ کے غلبہ سے زائل ہو جائے اور مجذوب وہ ہے کہ جس کی عقل کسی واردِ غیبی کے غلبہ سے زائل ہو جائے"۔

(فرق درمیان مجنون و مجذوب، ص:30، ط: اشرف المطابع)

"شریعت و طریقت "میں ہے:

"مجذوبوں کی فکر میں پڑنے سے ضرر یہ ہوتا ہے کہ لوگ شریعت کو بے کار سمجھنے لگتے ہیں، شریعت کی وقعت و عظمت ایسے لوگوں کے دلوں سے جاتی رہتی ہے، کیوں کہ مجذوب مکلف نہ ہونے کے سبب شریعت کی پیروی تو کرتے نہیں، پس ان کی فکر کرنے والے بھی شریعت کو چھوڑ بیٹھتے ہیں، حالاں کہ مجذوب لوگ بوجۂ عقل جاتی رہنے کے معذور ہیں، اور ان لوگوں میں عقل و سمجھ سب کچھ ہے اس لیے یہ معذور نہیں(لہذا یہ اپنا دین برباد کرتے ہیں"۔

(عنوان: مجذوب، ص: 343، ط: مکتبہ الحق، ترتیب: مولانا محمد دین صاحب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں