بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجنون کی بیوی کے لیے فسخ نکاح کے بارے میں شرعی تفصیل


سوال

ذہنی بیمارمثل پاگل بیوی کو طلاق کس طرح دےگا ؟

جواب

اگر  ذہنی مریض مجنون اور پاگل کی طرح  ہو یعنی اس کا دماغ صحیح نہ رہا  ہو ،آسمان کو زمین او رزمین کو آسمان بتاتا ہو، اچھے برے میں کوئی تمیز نہ کرتا ہوتو  ایسی حالت میں اگر  وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تو اس پر طلاق واقع نہ ہوگی، لیکن اگر ایسی حالت نہ ہو  تو   اس کی بیوی پرطلاق واقع ہوجائےگی، پہلی  صورت میں یہ  مجنون کے حکم  میں ہے،جو احکام مجنون کے لیے ہیں اس کے لیے بھی وہی احکام ہیں ۔

 شوہر مجنون ہے تو اس کی   دو صورتیں ہیں:

1۔ نکاح کے وقت جنون تھا  اور بے خبری میں نکاح ہو جائے۔ 

2۔  نکاح کے وقت جنون نہ تھا۔

ان دونوں صورتوں میں عورت کو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ تفریق کا حق حاصل ہو گا:

1۔ عورت کی طرف سے رضامندی نہ پائی جائے، اگر نکاح سے پہلے جنون کا پتا تھا پھر بھی نکاح کر لیا تو اختیار نہ ہو گا اور اگر نکاح کے بعد جنون ہوا ہو تو یہ شرط ہے کہ جنون کی خبر ہونے کے بعد اس کے نکاح میں رہنے پر رضامندی ظاہر نہ کی ہو ، اگر عورت نے ایک مرتبہ بھی رضامندی ظاہر کر دی تو عورت کا اختیار ختم ہو جائے گا۔

2۔ جنون کا پتا چلنے کے بعد اپنے اختیار سے عورت نے جماع یا دواعی جماع کا موقع نہ دیا ہو۔

تفریق کی صورت اور طریقہ کار:

مجنون کی بیوی قاضی کی عدالت میں درخواست دے اور شوہر کا خطرناک مجنون ہونا ثابت کرے ، قاضی واقعہ کی تحقیق کرے، اگر واقعہ درست ثابت ہو تو مجنون کو علاج کے لیے ایک سال کی مہلت دےد ے ، سال گزرنے کے بعد بیوی پھر درخواست دے ، اگر شوہر کا جنون اب تک قائم ہو تو عورت کو اختیار دے دیا جائے، اس پر عورت اگر اسی مجلس میں نکاح کو ختم کرنے کا مطالبہ کرے  تو قاضی تفریق  کرا دے۔

نوٹ: مجنون کی بیوی اپنے خاوند سے علیحدگی  اختیار کرنے میں خود مختار نہیں، بلکہ قاضی کا فیصلہ شرط ہے۔

كتاب الأثار میں ہے:

"ولو وجدته مجبوبا كان لها الخيارلأن الطلاق ليس بيدها وكذلك إذا وجدته مجنونا موسوسا يخاف عليها قتله."

(كتاب الأثار،كتاب النكاح،باب الرجل يتزوج وبه العيب والمرأة،ص:85،مطبع: إدارةالقرآن والعلوم الإسلاميه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما خلو الزوج عما سوى هذه العيوب الخمسة من الجب، والعنة والتأخذ والخصاء والخنوثة، فهل هو شرط لزوم النكاح؟ قال أبو حنيفة، وأبو يوسف ليس بشرط، ولا يفسخ النكاح به.‌وقال ‌محمد: ‌خلوه ‌من ‌كل ‌عيب لا يمكنها المقام معه إلا بضرر كالجنون والجذام والبرص، شرط لزوم النكاح حتى يفسخ به النكاح، وخلوه عما سوى ذلك ليس بشرط، وهو مذهب الشافعي.(وجه) قول محمد أن الخيار في العيوب الخمسة إنما ثبت لدفع الضرر عن المرأة وهذه العيوب في إلحاق الضرر بها فوق تلك؛ لأنها من الأدواء المتعدية عادة، فلما ثبت الخيار بتلك، فلأن يثبت بهذه أولى بخلاف ما إذا كانت هذه العيوب في جانب المرأة؛ لأن الزوج، وإن كان يتضرر بها لكن يمكنه دفع الضرر عن نفسه بالطلاق، فإن الطلاق بيده، والمرأة لا يمكنها ذلك؛ لأنها لا تملك الطلاق، فتعين الفسخ طريقا لدفع الضرر، ولهما أن الخيار في تلك العيوب ثبت لدفع ضرر فوات حقها المستحق بالعقد، وهو الوطء مرة واحدة، وهذا الحق لم يفت بهذه العيوب؛ لأن الوطء يتحقق من الزوج مع هذه العيوب، فلا يثبت الخيار هذا في جانب الزوج."

(بدائع الصنائع،كتاب النكاح، فصل شروط لزوم النكاح، ج:2، ص:327، ط:دارالكتب العلمية)

 فتاوی ٰعالمگیری میں ہے:

"قال محمد رحمه الله تعالى إن كان الجنون حادثا يؤجله سنة كالعنة ثم يخير المرأة بعد الحول إذا لم يبرأ وإن كان مطبقا فهو كالجب وبه نأخذ كذا في الحاوي القدسي."

(الفتاوي الهنديه ،كتاب الطلاق،الباب الثانی عشرفي العنين، ج:1، ص:579،ط:دار الفكر)

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" میں ہے:

"بخلاف ما لو كان أحدهما مجنونا فإنه لا يؤخر إلى عقله في الجب والعنة لعدم الفائدة.ويفرق بينهما للحال في الجب وبعد التأجيل في العنين؛ ‌لأن ‌الجنون ‌لا ‌يعدم ‌الشهوة، ‌بخصومة ولي إن كان وإلا فمن ينصبه القاضي.

وتحته فی منحة الخالق وتكملة الطوري

(قوله: وبعد التأجيل في العنين؛ لأن الجنون إلخ) قال في البدائع وإن كان الزوج كبيرا مجنونا فوجدته عنينا قالوا إنه لا يؤجل كذا ذكر الكرخي؛ لأن التأجيل للتفريق عند عدم الدخول وفرقة العنين طلاق والمجنون لا يملك الطلاق وذكر القاضي في شرح مختصر الطحاوي أنه ينتظر حولا ولا ينتظر إلى إفاقته بخلاف الصبي؛ لأن الصغر مانع من الوصول فيتأتى إلى أن يزول الصغر ثم يؤجل سنة فأما الجنون فلا يمنع الوصول؛ لأن المجنون يجامع فيولج للحال والصحيح ما ذكره الكرخي إنه لا يؤجل أصلا لما ذكرنا اهـ."

(البحرالرائق،كتاب الطلاق،باب العنين و غيره، ج:4، ص:133، ط:دار الكتاب الإسلامي)

المدونة الكبری میں ہے:

"قال: ‌وقال ‌لي ‌مالك ‌في ‌المجنون إذا أصابه الجنون بعد تزويجه المرأة: إنه يعزل عنها ويضرب له أجل سنة في علاجه، فإن برئ وإلا فرق بينهما، قال ابن القاسم: وبلغني عن مالك أنه قال يضرب له أجل سنة ."

(المدونة الكبری،كتاب النكاح الثاني في ضرب الأجل لإمرأةالمجنون و الجذام، ج:2، ص:187، ط:دارالكتب العلميه)

حیلہ ناجزہ یعنی عورتوں  کا حق ِ تنسیخ ِ نکاح میں  حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  رقم طراز ہیں:

"زوجہ مجنون کے لیے خیار فسخ کا بیان:

الجواب:(1) جنون کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ عقد نکاح کے وقت جنون موجود ہو اور بے خبری میں نکاح ہو جائے ، دوسری یہ کہ عقد کے وقت جنون  نہیں تھا مگر نکاح کے بعد لاحق ہوگیا ، خواہ ہم  بستری سے پہلے ہو گیاہو،یا بعد میں ۔

ان دونوں صورتوں میں تفریق کا اختیار عورت کو ان شرائط کے ساتھ حاصل ہو جاتا ہے جو جواب نمبر دو میں ابھی آتی ہیں، مگر پہلی صورت یعنی موجود وقت العقد میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی اختیار ہے اور مالکیہ کے نزدیک بھی اور دوسرے صورت یعنی حادث بعد العقد میں صرف مالکیہ کے نزدیک اختیار ہے،  اس لیے دوسری صورت میں بغیر ضرورت ِ شدیدہ کے نکاح فسخ نہ کیا جائے۔

دعوی اور تفریق کی صورت:......(2)  تفریق کی صورت یہ ہے کہ مجنون کی عورت قاضی کی عدالت میں درخواست دے اور خاوند کا خطرناک جنون ثابت کرے قاضی واقعہ کی تحقیق کرے اگر صحیح ثابت ہو تو مجنون کو علاج کے لیے ایک سال کی مہلت دے دے اور بعد اختتام سال اگر زوجہ پھر درخواست کرے اور شوہر کامرض جنون ہنوز اب تک موجود ہو تو عورت کو اختیار دے دیا جائے اس پر اگر عورت اسی مجلس میں فرقتِ طلب کر لے جس میں  اس کواختیار دیا گیا ہے،  تو قاضی تفریق کر دے اور یہ تفریق اگر اس جنون کی وجہ سے کی گئی ہے جو عقد نکاح کے  وقت موجود تھا تب تو طلاق نہیں بلکہ فسخ  ہے،  اگر حادث بعد العقد کی وجہ سے کی گئی ہے، تو اس میں طلاق ہونے کا احتمال ہے ، علمائے مالکیہ سے تحقیق کیجئے اور جب تک تحقیق نہ ہو اس وقت تک طلاق قرار دینا چاہیے کہ اس میں احتیاط ہے۔

تفریق کی شرط

اور زوجہ مجنون کو خیار فسخ حاصل ہونے کے لیے مند جہ ذیل شرطیں  ہیں،  اگر یہ شرطیں نہ پائی جائیں  تو تفریق کا حق نہیں اس لیے ان کو غور سے سمجھ لینا چاہیے۔

(الف) ایک شرط یہ ہے کہ عورت کی طرف سے رضامندی نہ پائی جائے بس اگر نکاح سے پہلے جنون کا پتا تھا، اور اس کے باوجود نکاح  کیا گیا ، تو  خیار فسخ حاصل نہیں ہوتا اور اگر نکاح کے بعد جنون ہوا ہو تو یہ شرط ہے کہ جنون کی خبر ہونے کے بعد اس کے نکاح میں رہنے پر رضامندی ظاہر نہ کی ہو ، اگر ایک مرتبہ بھی رضامندی ظاہر کر چکی  ہو، توخیار فسخ باطل ہو گیا۔

(ب) دوسری شرط یہ ہے، کہ  جنون کا پتہ لگنے کے بعد اپنے اختیار سے عورت نے جماع یا دواعی جماع کا موقع نہ دیا ہو،  البتہ اگر مجنون نےبجبر ِو اکراہ ہم بستری وغیرہ کر لی ،تو اس سے خیار ساقط نہیں ہوتا۔

(فائدہ)ہر دو شرط اگر رضامندی کا اظہار یا جماع وغیرہ کا موقع دینا ایسے جنون کے بعد پایا جائے جو موجب اختیار ہے تب تو خیار نہ رہے گا لیکن اگر معمولی جنون کی حالت میں نکاح کر لیا یا معمولی جنون پر نکاح میں رہنے کو منظور کر لیا تھا یا ہم بستری وغیرہ کا موقع دیا تھا اور بعد میں جنون بڑھ گیا تو اس رضا و تمکین سے خیار و فسخ ساقط نہ ہوگا ، مگر اس گنجائش سے نفع حاصل کرنے میں کامل دیانت اور سخت احتیاط سے کام لینا لازم ہے۔

(ج) زوجہ عنین کی طرح زوجہ مجنون بھی اپنے خاوند سے علیحدہ ہونے میں خود مختار نہیں، بلکہ قضائے قاضی شرط ہے اور جس علاقے میں قاضی موجود نہ ہو، مسلمان حاکم سے استغاثہ کیا جائے، بشرطِ یہ کہ اس حکومت کی طرف سے ایسے معاملات کے تصفیہ کا حق دیا گیا ہو اور شرعی طریق پر فیصلہ کرتا ہو ورنہ جماعتِ مسلمین سے درخواست کی جائے جس کی شرطیں مقدمہ میں گزر چکی ہیں  ان کو ضرور دیکھ لیں۔

(د) جب کہ مہلت کا سال گزر جانے کے بعد دوبارہ درخواست پر قاضی عورت کو اختیار دے تو عورت کو فرقت کا اختیار اسی مجلس تک رہتا ہے اگر مجلس برخاست ہو گئی ،یا عورت از خود  اٹھ گئی یا کسی  کے اٹھانے سے اٹھ گئی یا اور کسی طرح مجلس بدل گئی تو خیار فسخ باطل ہو گیا۔

مہر اور عدت کا حکم:

مہر اور عدت کا حکم یہ ہے،  کہ اگر خلوت صحیحہ سے قبل نکاح  فسخ ہو گیا تب تو مہر بالکل ساقط ہو جائے گا، اور عدت کی بھی ضرورت نہیں ،اور اگر عیب جنون معلوم ہونے سے قبل خلوت صحیحہ ہو چکی تھی ،بعد ازاں جنون کا پتہ لگنے پر  فسخ  نکاح  کی   نوبت آئی ہے،  تو پورا مہر لازم رہے گا اور عدت بھی واجب ہوگی ۔

شرائط نہ ہونے پر زوجہ مجنون کے لیے ایک  گنجائش:

(فائدہ) ۔۔۔زوجہ مجنون کا نکاح فسخ ہونے کے لیے جو شرائط اوپر مذکور ہوئیں  اگر کسی جگہ وہ شرائط موجود نہ ہوں تو جنون کی وجہ سے تفریق نہیں ہوسکتی، لیکن اگر یہ مجنون آمدنی  کا کوئی ذریعہ نہ رکھتا ہو،اور نہ اس کو کسب معاش پر  قدرت ہو، اور زوجہ کے لیے نفقے کی کوئی دوسری سبیل بھی نہیں ، توایسی صورت میں مفتی کے لیے عورت کی اضطرار کی پوری تحقیق ہوجانے اور چند علماء سے مشورے کے بعد اس فتوی کی بھی گنجائش ہےکہ مذہب مالکیہ کی بناء پر عدم نفقہ کی وجہ سے قاضی یا اس کا قائم مقام ان دونوں میں تفریق کردے ،اور یہ تفریق طلاق رجعی کے حکم میں ہوگی،لیکن  اس میں کامل تدبر سے کام لے کر مذہب مالکیہ کی تمام شرائط کی پابندی ضروری ہے ،جن میں سے ایک شرط یہ بھی ہے، کہ عدم ِنفقہ کی وجہ سے فسخ نکاح  اس وقت ہو سکتا ہے، جب کہ عقد نکاح سے پہلے اس کو خاوند کے فقیر و نادار  ہونے کا علم نہ ہو، ورنہ اگر ناداری کا علم ہوتے ہوئے عقد نکاح کیا گیا ہے، تو اب بوجہ عدم نفقہ کے بھی اس کو مطالبہ تفریق کا حق نہ ہوگا ،اور باقی شرائط اس مسئلہ کی بوقت ضرورت کتبِ مالکیہ کی مراجعت سے معلوم ہوسکتی ہیں۔۔۔۔"

(حیلہ ناجزہ یعنی عورتوں  کا حق ِ تنسیخ ِ نکاح ، ص:177-178-179، ط:دارالاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

 ذہنی بیمار مثل پاگل بیوی کو طلاق کس طرح دیگا ؟

فصل ہشتم:زوج کا مخبوط الحواس یا مجنون ہونا

پاگل کی بیوی کیا کرے؟

(سوال) میرا شوہر بعارضہ صرع مدت سے بیمار ہے عرصہ ہفت سال علاج کیا گیا مگر آرام نہ ہوا اب دس  ماہ سے مجنون ہوکر گھر سے نکل گیا ہے ڈاکٹر اور حکیم اس کو لا علاج بتارہے ہیں میرے چھوٹے کمسن بچے ہیں بوجہ افلاس تنگ آگئی ہوں عمر کے لحاظ سے جوان ہوں -  

(جواب ۱۴۶)  خاوند کے مجنون ہوجانے کی صورت میں حضرت امام محمد ؒ کے قول کے موافق ضرورت شدیدہ میں حاکم مجاز کو نکاح فسخ کردینے کی گنجائش ہے لیکن حاکم مجاز سے حکم فسخ حاصل کرنے سے قبل دوسرا نکاح کرلینا جائز نہیں - محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ ‘ 

شادی کے بعد شوہر دیوانہ ہوگیا‘ تو بیوی ایک سال کی مہلت کے بعد تفریق کراسکتی ہے ؟

 (سوال)  ایک شخص  بصحت عقل و تندرستی  بدن تقریبا ً تین چار برس اپنی منکوحہ کے ساتھ بسر کرتا رہا چنانچہ اسی زوجہ سے اس کا ہفت سالہ لڑکا بھی ہے پھر وہ شخص مجنو ن ہوگیا اور چھ برس سے مجنون ہے اس کے ورثا نے باقاعدہ اس کا علاج بھی نہیں کرایا عورت جوان ہے اور زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے کسی صورت سے اس کا نکاح فسخ ہوسکتا ہے یا نہیں؟  

(جواب ۱۴۷)  حضرت امام محمد ؒ کے قول کے بموجب شوہر کے مجنون ہوجانے کی صورت میں نکاح فسخ ہوسکتا ہے مگر فسخ کے لئے حاکم مجاز کے فیصلہ  کی ضرورت ہے وہ جنون حادث میں ایک سال کی مہلت بغرض علاج دیکر سال بھر کے بعد اگر جنون زائل نہ ہو تو عورت کے طلب پر نکاح  فسخ  کرسکتا ہے  (یعنی ثالث مسلم فریقین) کو بھی حاصل ہوتا ہے لیکن حاکم یا حکم کے فیصلہ کے بغیر نکاح فسخ نہیں  ہوسکتا  محمد کفایت اللہ غفرلہ‘ مدرسہ امینیہ ‘ دہلی  

شوہر کو جنون ہو‘ تو اس کی بیوی کو تفریق کا حق حاصل ہے یا نہیں؟

(سوال)  ایک شخص نوجوان ضلع جلپائی گوڑی کا باشندہ تقریباً ڈیڑھ سال سے مرض جنون میں مبتلا ہے ناداری کی وجہ سے کسی اچھے حکیم یا ڈاکٹر یا وید سے علاج کرانے کا اتفاق نہیں ہوا نہ سرکاری پاگل خانے میں بھیجا گیا جس سے مرض کے اچھے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا شخص مذکور کی بیوی نوجوانی اور مفلسی سے تنگ آکر مستفتی ہوئی کہ نکاح ثانی درست ہے یا نہیں بعض علماء نے بمجرد پاگل ہونے اس کے شوہر  کے نکاح سابق کو فسخ قرار دیکر نکاح ثانی کا فتویٰ دیدیا اور نکاح کر بھی دیا دوسرے علماء نے  تا تحقیق عدم استرداد صحت‘ عدم جواز کا فتویٰ دیا  اب دو جماعت ہوگئی ہے اور نا اتفاقی کی خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے یہ نکاح درست ہے یا نہیں ؟ اور عدم جواز نکاح کی صورت میں  زانی اور زانیہ کو توبہ کے ساتھ ساتھ کیا کفارہ ادا کرنا چاہئیے؟  

(جواب ۱۴۸) جب کہ ڈیڑھ  سال سے زوج جنون میں مبتلا ہے اور اس مدت میں افاقہ نہ ہوا تو بغیر  مزید انتظار کے امام محمد ؒ کے قول کے بموجب تفریق جائز ہے  مگر حکم تفریق کے لئے حاکم بااختیار یا حَکَم کا فیصلہ ضروری ہے نیز حکم تفریق کے بعد عدت بھی گزارنی ہوگی (اگر عورت مدخول بہا تھی) یہ مراتب پورے کرلئے گئے تو نکاح ثانی درست ہوا ،ورنہ ناجائز ہونے کی صورت میں تفریق یا تجدید ضروری ہے اور گزشتہ کی تلافی کے لئے  صرف توبہ کافی ہے کوئی کفارہ لازم نہیں ، محمد  کفایت اللہ غفر لہ 

(کفایت المفتی، کتاب الطلاق،  ج:6، ص:147، ط:دارالاشاعت)

فتاوی حقانیہ میں ہے۔

"مجنون کی بیوی کے فسخ نکاح کا حکم 

سوال:۔ایک شخص نکاح کرنے کے چند سال بعد پاگل ہوگیا ،علاج ومعالجہ سے بھی کوئی فرق نہیں آیا ،حالت جنون میں وہ بہت کچھ کرجاتا ہے حتی کہ اس کی اپنی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے تو کیا یہ عورت اپنے مجنون خاوند سے اپنا نکاح بذریعہ عدالت فسخ کراسکتی ہے یا نہیں؟

الجواب:بشرط صدق وصحت سوال اگر اس عورت کا شوہر واقعی مجنون (پاگل)ہو اوروہ اچھے برے کی تمیز نہیں کرسکتا ہو اور جنون بھی اس حد تک ہو کہ بیوی کا اس کے ساتھ رہنا ممکن نہ ہو اور علاج ومعالجہ سے بھی بات نہیں بنتی ہو تو اس عورت کو شرعا اجازت ہے کہ اگر وہ اپنا نکاح شوہر سے فسخ کروانا چاہتی ہو تو عدالت کی طرف رجوع کرے ،عدالت مکمل تحقیقات کے بعد اس کو تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرسکتی ہے جو اس کے لئے کارمد ہوگی۔

لما قال الشیخ اشرف علی التھانویؒ:امام محمد ؒ کے نزدیک اس کویہ حق حاصل ہے کہ قاضی کے یہاں درخواست دے کر تفریق کا مطالبہ کرے اور اپنے آپ کو مجنون کی زوجیت سے علیحدہ کرالے بشرطیکہ جنون اس درجہ کا ہو کہ اس کے ساتھ رہنا قدرت سے خارج ہو مثلا اس سے قتل کا اندیشہ ہو۔ (حیلۃ ناجزۃ :ص؍۵۲،۵۴، حکم زوجہ ٔ مجنون ) ."

(فتاوی حقانیہ ، ج:4، ص:510، ط: جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ حٹک)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507102304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں