بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجنون کی عبادات و معاملات کا حکم


سوال

ہمارے 78 سالہ بھائی ہیں جو کہ پاکستان میں رہتے ہیں۔ دماغی طور پر بیمار ہیں اور ان کی یہ بیماری ختم ہونے کی امید نہیں ہے اب وہ بیہوش تو نہیں رہتے لیکن ذہنی طور پر پریشان رہتے ہیں۔ کیفیت یہ ہے کہ انہیں پاکی و ناپاکی کا خیال نہیں رہتا، دن میں کتنے بج رہے ہیں یا نماز کے اوقات، یہ باتیں معلوم نہیں ہوتیں، بعض اوقات اپنے ستر کھلنے کا بھی نہیں معلوم ہوتا، بعض اوقات اچانک مصلی پر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا شروع کردیں گے اور بغیر کچھ پڑھے رکوع سجدہ کا اشارہ کردیں گے، بچوں کی طرح کچھ تلقین کرنے پر کلمہ، کوئی سورت، تبلیغی چھ نمبر وغیرہ پڑھ دیتے ہیں، انہیں اپنے مالی معاملات، جائیداد، نقدی وغیرہ کا کچھ معلوم نہیں ہے، بڑی رقم اور چھوٹی رقم میں فرق نہیں کر سکتے۔

اپنی عمر کے لحاظ سے جسمانی صحت بظاہر ٹھیک ہے۔ دماغی بیماری سے پہلے مسجد جانے کے پابند تھے، جماعت میں بھی جاتے تھے ،لیکن اب دماغی حالت اور ناپاکی کے خدشہ کی وجہ سے مسجد نہیں لے جایا جاتا۔ ابھی ان کا سب سے چھوٹا بیٹا ان کی دیکھ بال کر رہا ہے (اہلیہ کا انتقال ہوچکا ہے) اور باقی بیٹوں کے اپنے الگ گھر ہیں۔ میرے سوالات یہ ہیں:

1 : کیا وہ عاقل شمار ہوں گے ؟ ان پر نمازیں فرض ہیں ؟

2 : کیا چھوٹی ہوئی نماز اور روزوں کے عوض فدیہ دینا ہے ؟ اگر ہاں، تو ان کی ملکیت کی رقم سے یا ان کی طرف سے اپنی رقم سے ؟

3 : کیا نگرانی کے ساتھ انہیں مسجد لے جانا چاہیے ؟

4 : ان کا گھر ، کاروبار، نقدی وغیرہ ہے جس کے معاملات وہ نہیں سمجھتے اب، کیا ان کے ورثاء ان چیزوں کو اپنے قبضہ میں لے سکتے ہیں ؟

5 : ان کے سارے معاملات کی نگرانی کے لیے سب سے بہتر کون ہے ؟ ان کے ساتھ رہنے والا بیٹا ؟ ان کا سب سے بڑا بیٹا ؟ ان کا کوئی ایک بھائی جو ان کے ساتھ نہیں رہتا، نہ ہی اس کا جائیداد میں اس کا کوئی حصہ ہے ، تاکہ وہ لالچ نہ کرے؟

6 : کیا ان کے معاملات کی نگرانی کرنے والے کو حق الخدمت دیا جاسکتا ہے ؟

7 : کافی سالوں سے ان کے مال پر زکات نہیں دی گئی، کیا زکات فرض ہے ؟

8 : کیا ان ہی کے مال سے زکات دی جائے گی ؟

9 : انہیں کچھ پیسے دینے تھے لوگوں کو، کیا اس دماغی حالت کی وجہ سے وہ قرض معاف ہوں گے یا دینے ہوں گے ؟

10 : ان ہی کے پیسوں سے دینے ہوں گے یا ہم اپنی طرف سے دیں گے ؟

11 : کچھ پیسے لوگوں سے وصول کرنے تھے، کیا ان پیسوں پر زکات آئے گی ؟

12 : پیسوں کی ویلیو زمانہ گزرنے کے ساتھ تبدیل ہوگئی ہے، تو کس وقت کی ویلیو کے حساب سے دی جائے گی ؟

13 : جو چھوٹا بیٹا ان کا خیال رکھتا ہے، کیا وہ اس کے عوض پیسے لے سکتا ہے ؟

14 : کچھ اولاد چاہتی ہے کہ چاروں بچوں میں برابری کے ساتھ ان کی جائیداد تقسیم ہوجائے، کیا ان کی زندگی میں ایسا ہوسکتا ہے ؟ اگر ہاں، تو اس کی شرائط ہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں آپ کے بھائی شرعی طور پر 'مجنون' ہیں اور ان پر مجنون کے احکام مرتب ہوں گے جن کی تفصیل ذیل میں ذکر کی جارہی ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (45 / 160):

أما المجنون: فهو من زال عقله بحيث يمنع جريان الأفعال والأقوال على نهجه إلا نادرا.

1 : جب تک یہ حالت ہو نماز پڑھناواجب نہیں۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (16 / 102):

لا خلاف بين الفقهاء في أن المجنون غير مكلف بأداء الصلاة في حال جنونه، فلا تجب الصلاة على مجنون لا يفيق؛ لأن أهلية الأداء تفوت بزوال العقل  لحديث عائشة رضي الله تعالى عنهامرفوعا: رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصبي حتى يحتلم، وعن المجنون حتى يعقل

2 : مذکورہ بیماری کی وجہ سے جو نمازیں رہ گئی ہوں، ان کی قضا یا فدیہ دینا لازم نہیں ہے۔ 

3 : مذکورہ حالت میں انہیں مسجد لے جانا جائز نہیں۔

4 : ان کی زندگی میں ان کی جائیداد پر ورثاء کا قبضہ جائز نہیں ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (45 / 172):

 نص الفقهاء على أنه يلزم على ولي المجنون والمجنونة تدبير شئونه ورعاية أموره بما فيه حظ المجنون، وبما يحقق مصلحته، فينفق عليه في كل حوائجه من ماله بالمعروف، ويداويه ويرعى صحته، ويقيده ويحجزه عن أن ينال الناس بالأذى أو ينالوه به إن خيف ذلك منه، صونا له، وحفظا للمجتمع من ضرره

5 : ان کے مال کی حفاظت  کے لیے بہتر وہ بیٹا ہے جو ان کی خدمت کر رہا ہے۔ اور اسے ان کے مال سے صرف ان کی ضرورت کی اشیاء،  یعنی کھانا پینا، ضرورت کے کپڑے وغیرہ کے لیے خرچ کرنے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مال میں اسے کچھ خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5 / 220):

ليس لابن المعتوه أن يأذن لأبيه المعتوه، ولا أن يتصرف في ماله، وكذا إذا كان الأب مجنونا؛ لأن ولاية التصرف في مال القريب لا تثبت إلا إذا كان المتصرف كامل الرأي وافر الشفقة، وليس للابن وفور الشفقة فلا يملكه بخلاف الأب والجد فإنهما وافرا الشفقة كاملا الرأي فيملكانه ووصيهما قائم مقامهما فيكون معتبرا بهما فيملك الإذن للصغير والمعتوه الذي بلغ معتوها ولعبدهما كما يملكانه، وإن بلغ رشيدا ثم عته كان الفقيه أبو بكر البلخي - رحمه الله - يقول لا يصح الإذن له قياسا، وهو قول أبي يوسف - رحمه الله - ويصح استحسانا، وهو قول محمد - رحمه الله -

امداد الفتاوی میں ہے :

۔۔۔اور ولایت مال مجنون کی دو قسم ہے ۔ ایک ولایتِ تصرف، دوسری ولایتِ حفظ۔۔۔

اور قسم دوم اس شخص کے لیے ہے جو اس مجنون کی نگرانی و خدمت کرے ۔۔۔۔

(ج 2، ص 367)

6 : بیٹے پر والد کی خدمت کرنا فرض ہے لہذا اس خدمت کے بدلے میں نگرانی کا حق الخدمت نہیں لے سکتا۔

7 : مذکورہ دماغی بیماری کے بعد سے ان کے مال پر زکات لازم نہیں ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (16 / 105):

وذهب الحنفية إلى أنه لا زكاة في مال. المجنون؛ لأنه غير مخاطب بالعبادة، والزكاة من أعظم العبادات، فلا تجب عليه كالصلاة والحج ولقوله صلى الله عليه وسلم: رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصبي حتى يحتلم، وعن المجنون حتى يعقل

8 : زکات دینا لازم نہیں ہے جیسا شق نمبر 7 میں ذکر کیا گیا۔

9 : لوگوں کی واجب الاداء رقم انہیں دینا لازم ہے، جنون کی بیماری کی وجہ سے مالی حقوق معاف نہیں ہوتے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (16 / 101):

ولا يؤثر الجنون في أهلية الوجوب؛ لأنها ثابتة لكل إنسان، فكل إنسان أيا كان له أهلية الوجوب؛ لأن أهليته للوجوب هي حياته الإنسانية.

وما وجب على المجنون بمقتضى أهليته للوجوب من واجبات مالية يؤديها عنه وليه.

10 : ان ہی کے پیسوں سے وہ رقم ادا کرنی ہے۔

11 : جنون کی بیماری کے بعد زکات لازم نہیں ہے۔

12 : زکات کی ادائیگی لازم نہیں ہے۔

13 : نہیں۔ تفصیل شق نمبر 6 میں ملاحظہ کریں۔

14: زندگی میں وہ اپنے مال جائداد کے خود ہی مالک ہیں، ان کی حیات میں اولاد ان کے مال کوآپس میں تقسیم نہیں کرسکتی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں