بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجنون کے مال میں تصرف کا حق


سوال

ایک شخص زید کا انتقال ہوا، اس کے پس ماندگان میں دو بیٹے عمرو ، بکراورایک بیٹی فاطمہ حیات تھی، زمین تقسیم ہوئی ، کچھ عرصہ بعد عمرو نے اپنی زمین اور اپنےپاگل بھائی بکر کی زمین فروخت کردی، اس کے بعد بکر مجنون فوت ہوگیا، فاطمہ کہتی ہےکہ پاگل بھائی بکر کی زمین میں تصرف ناجائز تھا، وہ فروخت نہیں ہوئی ، اب مجھے اس میں سے حصہ دیا جائے، فاطمہ کا یہ دعوی درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مجنون کا ولی اس کا  والد یاوالد کا وصی اور والد کی غیر موجودگی میں دادا یا اس کا وصی اور دادا کے نہ ہونے کی صورت میں  قاضی ہوگا، ان کے علاوہ کسی کو بھی مجنون کےمال میں تصرف کا اختیار نہیں ، اگر ان کے علاوہ کسی فرد نے اس میں کسی قسم کا تصرف کیا تو وہ باطل شمار ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مجنون کے بھائی عمرو کو مجنون بھائی (بکر) کی زمین فروخت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں تھی ، چوں کہ مجنون بھائی (بکر) کا انتقال ہوگیا ہے ، اور اس کے ورثاء میں یہی ایک بھائی (عمرو)اور ایک بہن (فاطمہ)ہیں ،اس صورت میں عمرو( بھائی) کے دوحصے اور بہن (فاطمہ) کا ایک حصہ ہوگا،اور ہر ایک اپنےاپنے  حصے کا مالک ہے، کسی دوسرے کو اجازت نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے حصے کو اس کی اجازت کے بغیر فروخت کردے، چوں کہ عمرو زمین فروخت کرچکا ہے، اس وجہ سے  عمرو کے اپنے حصے کے بیع تو درست ہوگئی، البتہ  بہن فاطمہ  کو بکر سے جو حصہ ملا ہے اس  کی بیع اس کی اجازت پر موقوف ہوگی ،اگر وہ اجازت دے دے تو بیع درست ہوجائے گی اور وہ اپنے حصے کے بقدر رقم کی حق دار ہوگی، اور اگر وہ اجازت نہ دے تو اس کے حصے کے بقدر بیع باطل ہوجائے گی ، اور وہ مشتری  سے اپنے حصے کی زمین لے سکے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(الوالي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه)۔

وفي الرد:(قوله لا المال) فإنه الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه فقط۔"

(كتاب النكاح،باب الولی  ،ج:3 ، ص:76،ط:سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وأصل المسألة أن ‌بيع ‌الفضولي يتوقف على إجازة المالك عندنا ويجعل إجازته في الانتهاء كالإذن في الابتداء۔"

(کتاب البیوع، باب الاستبراء، ج:13، ص:153، ط:دارالمعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں