بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجلس ذکر کی فضیلت سے متعلق حدیث کی تخریج


سوال

تبلیغی حضرات اپنے بیان میں  یہ بات بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایسی مجلس میں بیٹھتا ہے ایسی مجلس کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور سکینہ نازل ہوتی ہے الخ پھر اخیر میں اللہ تعالیٰ فرشتوں کو کہتے ہیں  کہ گواہ رہنا ہم نے مجلس میں بیٹھنے والے سبھی لوگوں کی مغفرت کردی ۔

کیا ایسی کوئی حدیث ہے؟  کیا اس حدیث کا مصداق دینی مجلس میں بیٹھنے والے اور تبلیغی جماعت کے مجلس بیٹھنے والے بھی ہیں؟

جواب

سوال میں آپ نے جس حدیث کے بارے میں دریافت کیا ہے ، یہ حدیث"صحيح البخاري"، "صحيح مسلم"، "سنن أبي داؤد"،"سنن الترمذي"، "سنن ابن ماجه"، "مسند أحمد"اور دیگر کتب احادیث میں کہیں مختصرا، کہیں تفصیلا مذکور ہے۔البتہ جن جگہوں میں سکینہ  نازل ہونے کا ذکر ہے، وہاں مغفرت کا ذکر نہیں، اور جہاں مغفرت کا ذکر ہے وہاں سکینہ نازل ہونے کا ذکر نہیں ملتا۔

"صحيح مسلم" ميں ہے:

"حدثنا محمد المثنى، وابن بشار، قالا: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، سمعت أبا إسحاق يحدث عن الأغر أبي مسلم، أنه قال: أشهد على أبي هريرة، وأبي سعيد أنهما شهدا على النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "لايقعد قوم يذكرون الله عز وجل إلا حفتهم الملائكة، وغشيتهم الرحمة، ونزلت عليهم السكينة، وذكرهم الله فيمن عنده."

(صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء والتوبة الإستغفار، باب فضل الإجتماع على تلاوة القرآن، 2/1645، رقم: 6849، ط: البشرى)

ترجمه:

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالي عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالي عنہ نے رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شہادت دیتے ہوئے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: جب بھی کچھ لوگ بیٹھ کر کہیں اللہ عزوجل کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور رحمت ِالہی ان کو ڈھانپ لیتی ہے، اور ان پر سکینت اور اطمینان نازل ہوتا ہےاور اللہ ان کا اپنے ہاں کے لوگوں(مقرر فرشتوں) میں ذکر کرتا ہے"۔ 

"صحيح البخاري" ميں ہے:

"حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن لله ملائكة يطوفون في الطرق يلتمسون أهل الذكر، فإذا وجدوا قوما يذكرون الله تنادوا: هلموا إلى حاجتكم، قال: فيحفونهم بأجنحتهم إلى السماء الدنيا، قال: فيسألهم ربهم، وهو أعلم منهم، ما يقول عبادي؟ قالوا: يقولون: يسبحونك ويكبرونك ويحمدونك ويجمدونك، قال: فيقول: هل رأوني؟ قال: فيقولون: لو رأوك كانوا أشد لك عبادة، وأشد لك تمجيدا وتحميدا، وأكثر لك تسبيحا، قال: يقول: فما يسألوني؟ قال: يسألونك الجنة، قال: يقول: وهل رأوها؟ قال: يقولون: لا والله يا رب ما رأوها، قال يقول: فكيف لو أنهم رأوها؟ قال: يقولون لو أنهم رأوها كانوا أشد عليها حرصا، وأشد لها طلبا، وأعظم فيها رغبة، قال: فمم يتعوذون؟ قال: يقولون: من النار، قال: يقول: وهل رأوها؟ قال: يقولون: لا والله يا رب ما رأوها، قال: يقول فكيف لو رأوها؟ قال: يقولون: لو رأوها كانوا أشد منها فرارا، وأشد لها مخافة، قال: فيقول: فأشهدكم أني قد غفرت لهم، قال: يقول ملك من الملائكة: فيه فلان ليس منهم، إنما جاء لحاجة، قال: هم الجلساء لا يشقى بهم جليسهم."

(صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب فضل ذكر الله عز وجل،4/2836،2837، رقم: 6408، ط: البشرى)

ترجمه:

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالي عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرنے والوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں جو ذکر اللہ میں مصروف ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مقصد حاصل ہوگیا۔پھر وہ  آسمان دنیا تک اپنے پروں سے انہیں(ذاكرين) كو ڈھانپ لیتے ہیں۔پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے، حالاں کہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں:  وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی بیان کررہے تھے۔ پھر اللہ تعالي سوال کرتے ہیں: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟(حضور  صلي اللہ علیہ وسلم نے)فرمایا: وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں :نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔اس پر اللہ تعالي فرماتا ہے، پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ مجھے دیکھ لیتے؟ وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کرلیتے تو تیری عبادت اور بھی زیادہ کرتے، تیری بڑائی اور زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح اور زیادہ کرتے۔ اللہ تعالي دریافت کرتے ہیں، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔اللہ تعالي سوال کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ واللہ!انہوں نے تیری جنت کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالی دریافت کرتے ہیں ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انھوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ حریص، خواہشمند اور سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔پھر اللہ تعالي پوچھتے ہیں کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں دوزخ سے۔ اللہ تعالي سوال کرتے ہیں کیا انهوں نے جنہم کو دیکھا ہے؟وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، واللہ! انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالي فرماتےہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ(فرشتے) جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالي فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کردی۔(حضور اکرم صلي اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ: اس پر ان(فرشتوں) میں سے ایک فرشتہ نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالي ارشاد فرماتے ہیں کہ: یہ(ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔"

مذکورہ حدیث میں مجالس سے مراد وہ تمام مجالس ہیں جو دینی مفاد کے لیے منعقد کی گئی ہوں ، چاہے وہ مجلس ذکر ہو، یا مجلس تعلیم وتعلم ہو، یا پھر مجلسِ دعوت وتبلیغ وغیرہ ہو، یہ تمام مجالس ، مجالس ِذکر میں شامل ہوں گی۔چناچہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ"فتح الباری شرح صحیح البخاری" میں فرماتے ہیں:

المراد بمجالس الذكر، وأنها التي تشتمل على ذكر الله بأنواع الذكر الواردة من تسبيح وتكبير وغيرهما، وعلى تلاوة كتاب الله سبحانه وتعالى، وعلى الدعاء بخيري الدنيا والآخرة... وقراءة الحديث ومدارسة العلم والمناظرة فيه من جملة ما يدخل تحت مسمى ذكر الله تعالى".

(فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب فضل ذكر الله عز وجل، ج: 19، ص: 455، رقم الحديث: 6408، ط: الرسالة العليمة)

خلاصہ یہ ہے کہ حدیث تمام دینی مجالس کے لیے ہے صرف تبلیغی جماعت کے لیے خاص نہیں ہے، البتہ فضائل کی حدیث کی تعلیم بھی اس میں داخل ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں