میں نے رشتہ داروں سے چھپ کے نکاح کیا تھا، مجلس نکاح میں نہ لڑکی تھی اور نہ لڑکی کا وکیل ،لڑکی کی طرف سے صرف نکاح نامہ پر وہ دستخط تھا جو میں نے اس سے نکاح نامہ پر لیا تھا اور یہ بھی اس وقت میں نے لیا جب نکاح نامہ مکمل خالی تھا، اس پر کچھ اندراج نہیں تھا ،اور مولوی صاحب نے غلطی سے لڑکی کے والد کے نام کی جگہ دادا کا نام نکاح پڑھاتے وقت لیاتھا ، جب میں نے گھر والوں کو نکاح کا بتایا اور نکاح نامہ دکھایا تو گھر والوں کا کہنا ہے کہ نکاح نامہ میں بہت سی غلطیاں ہیں، ایسے نکاح نہیں ہوتا، دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے ،شرعی راہ نمائی فرمائیں کہ میر انکاح ہواہے یا دوبارہ نکاح کروں۔
صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ نکاح میں شریعت کی طرف سے مقرر کردہ اصول کی رعایت نہیں کی گئی ، مثلاً:مجلس نکاح میں نہ خود لڑکی موجود تھی اور نہ اس کا وکیل موجودتھا،اور مجلس نکاح میں لڑکی کے والد کے نام کی جگہ غلطی سے دادا کا نام لیاگیا،لہذا سائل کا شرعی طورپر نکاح منعقد نہیں ہوا، ازسر نو نکاح کرنا ضروری ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ینعقد بالإيجاب والقبول وضعا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلا كان كالأمر أو حالا كالمضارع، كذا في النهر الفائق."
(کتاب الطلاق، الباب الثانی فیما ینعقد به النکاح، 1/ 270، ط: دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: وينعقد) قال في شرح الوقاية: العقد ربط أجزاء التصرف أي الإيجاب والقبول شرعا لكن هنا أريد بالعقد الحاصل بالمصدر، وهو الارتباط لكن النكاح الإيجاب والقبول مع ذلك الارتباط، إنما قلنا هذا؛ لأن الشرع يعتبر الإيجاب والقبول أركان عقد النكاح لا أمورا خارجية كالشرائط."
(کتاب النکاح، 3/ 9، ط: دار الفکر)
وفیھاایضاً:
"ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين، وإن طال كمخيرة، وأن لا يخالف الإيجاب القبول كقبلت النكاح لا المهر نعم يصح الحط كزيادة قبلتها في المجلس، وأن لا يكون مضافا ولا معلقا كما سيجيء، ولا المنكوحة مجهولة، ولا يشترط العلم بمعنى الإيجاب والقبول فيما يستوي فيه الجد والهزل إذ لم يحتج لنية به يفتى."
(کتاب النکاح، 3/ 14، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"لأنه توكيل (غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح.
(قوله: لم يصح) لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافا لابن الفضل وعند الخصاف يكفي مطلقا والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوبا إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها (قوله: إلا إذا كانت حاضرة إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشارا إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها."
(کتاب النکاح ، 3/ 26، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101604
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن