بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوراً بدعت میں حصہ لینا


سوال

مجبوراً بدعت میں تھوڑا بہت حصہ ڈالنا کیسا ہے؟ اس کا کیا کفارہ ہے؟ اور اسی طرح مجبوراً بدعت كا کھانا کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں جب سائل کو کسی کام کا شرعاً بدعت  ہونا معلوم ہے،تو ایسی صورت میں سائل کا فرض بنتا ہے کہ دیگر احباب واقارب کو اس کے بدعت اور باعث گناہ ہونے سے آگاہ کرے،اور حتی المقدور ان کو ناجائز امور سے روکنے کی کوشش کرے ،نہ یہ کہ بدعت کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ خاندانی یا برادری کےدباؤ کی وجہ سے خود بھی اس بدعت میں شریک ہوجائے ، اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے،اور ایسا کرنے کی صورت میں سخت گناہ کا مرتکب ہوگا،البتہ اگرنادانی میں ان کے ساتھ کسی بدعت کے کا م میں شریک ہوگیا ،تو اب خوب تو بہ واستغفار کرے ،اور آئندہ کے لیے عزم کرے کہ کسی بدعت اور گناہ کے کام  میں شریک نہیں ہوں گا، مزید یہ کہ جو اس میں مبتلا ہیں ،ان کو اس اللہ کی نافرمانی سے روکنے کی پوری کوشش کرے،نیز بدعت ورسومات (تیجا،چالیسواں وغیرہ) کے مواقع پر جو کھانے کھلائے جاتے ہیں ،ان کا کھانا بھی درست نہیں ہے،اس میں کئی خرابیاں پائی جاتی ہیں لہذا اجتناب ضروری ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد."

(کتاب الصلح،باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود،ج:2،ص:959،رقم الحدیث:2550،ط:دار ابن كثير)

صحیح مسلم میں ہے:

"فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من سن في الإسلام سنة حسنة، فله أجرها، وأجر من عمل بها بعده. من غير أن ينقص من أجورهم شيء. ومن سن في الإسلام سنة سيئة، كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده. من غير أن ينقص من أوزارهم شيء."

(کتاب الزکوۃ،‌‌باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة أو كلمة طيبة، وأنها حجاب من النار،ج:2،ص:704،رقم :1017،ط:دار إحياء التراث العربي)

فتح الباری میں ہے:

"(قوله: باب ما يجوز من الهجران لمن عصى )

 أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز؛ لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع، فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها".

(کتاب الأدب،قوله ‌باب ‌ما ‌يجوز ‌من ‌الهجران ‌لمن ‌عصى،ج:10،ص:497،ط:دارالمعرفة بیروت)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومن أجل ذلك قال حذيفة رضي الله عنه: ‌كل ‌عبادة لم يتعبدها أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلا تعبدوها فإن الأول لم يدع للآخر مقالا، فاتقوا الله يا معشر القراء، وخذوا بطريق من كان قبلكم ونحوه لابن مسعود أيضا، وقد تقدم من ذلك كثير."

(‌‌الباب الثامن في الفرق بين البدع والمصالح المرسلة والاستحسان،ج:2،ص:630،ط:دار ابن عفان، السعودية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية:ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازہ،مطلب فی الصواب علی المصیبة،ج:2،ص:240،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411102500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں