بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوری میں بینک سے قرض لینا


سوال

مجبوری کے تحت بینک سے لون لے کر کوئی پراپرٹی لینا؛ تاکہ مہینے کا خرچہ کا مسئلہ حل ہو جائے،  کیا اس میں کوئی مضائقہ ہے ؟

اس لون میں   بینک 3  فیصد چارج کرے گا،  سروس چارجز کی مد میں ، میرا بھائی چوں  کہ   بینک میں جاب کرتا ہے ، اس لیے یہ تین فیصد ہے،  ورنہ 12 فیصد ہوتا ہے،  اس طرح لون لیا جا سکتا ہے،تا کہ اس سے  ماہانہ اخراجات کا مسئلہ حل ہوجائے؟   اس گھر کو کرائے پر دے دیا جائے اور  اس کرائے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ بینک سے قرض لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے، جس کا لینا ، دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سودی معاملات کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ اس لیے اس سے احتراز لازم اور ضروری ہے۔ جب کہ کسی  بھی بینک سے  قرضہ لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے،  گو وہ کسی دوسرے نام سے کیا جاتا ہو، اس لیے کسی بینک سے قرضہ لینا اور اس سے گھر خریدنا یا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے، لہذا اگر قرض لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور  سے غیر سودی قرضہ حاصل کر لیں ؛ کیوں  کہ  انجام کارسودی قرضہ کاروبار میں ترقی کے بجائے تنزلی کا ذریعہ ہی  بنتاہے۔

اور اگر قرض لینے کا  کوئی اور بندوبست نہ ہو تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے قناعت کرنا چاہیے، اگر آدمی اگر حرام سے بچنے کے لیے ہمت بلند رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ بینک کی ملازمت ناجائز ہے، اور ملازمت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تنخواہ بھی ناجائز ہے، لہٰذا سائل کے بھائی کا بینک میں ملازمت کرنا بھی ناجائز ہے اور قرضہ لینا ایک اور ناجائز کام ہوگا۔

اس کائنات میں  مالی اعتبار سے مختلف حیثیات کے لوگ آباد ہیں، سب ایک جیسے نہیں ہیں، اس لیے شرعی اصولوں کے مطابق ہمارا نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم  مالی حیثیت اور مالی مراعات  میں اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھیں، اپنے سے اوپر والوں کو نہ دیکھیں، دوسرا یہ کہ اپنی ضروریات اور تعیشات کی تشخیص بھی کرلیں، مزید یہ کہ ہم سب اسباب و متاع کی فروانی کے باجود معاشی سے زیادہ معادی (آخرت کی طرف لوٹنے والے) انسان ہیں، آخرت کا خیال اور دھیان بھی رکھیں تو ہمارا بوجھ کم ہوجائے گا، ان شاءاللہ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا} [الطلاق: 2، 3]

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکاۃ المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

      مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ینکح الرجل أمه».

(1/246، باب الربوا ، ط؛ قدیمی)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".

(14/513، باب کل قرض جرّ منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارۃ القرآن)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207201115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں