بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوری کی وجہ سے نمازنہ پڑھنے کے باوجود نماز پڑھ لی کہنا/ سسرکابہو کو نماز کے لیے جگانا


سوال

 عرض یہ ہے کہ کیا سسر بہو کو نماز فجر میں آواز لگا کر اٹھا سکتا ہے؟ جب کہ شوہر بھی موجود ہو، اور وہ بھی حافظ قرآن اور نمازی ہو؛ کیونکہ عورت کے ساتھ دسیوں مسائل ہوتے ہیں، مثلا ایام کے دن یا رات کو کسی مجبوری میں غسل نہیں کرسکی  سردی وغیرہ کی وجہ سے، جبکہ یہ سب مسائل سسر کو تو نہیں بتائے جاسکتے ،میری بیوی ہے میری ذمہ داری ہے میں خود اٹھالوں گا ،آپ میرے والد ہیں، آپ صرف مجھےآواز دیں بیوی کو میں خود اٹھالونگا ،لیکن روزانہ کا یہ معمول ہے مجھے الگ اور میری بیوی کو الگ آواز دیتے ہیں کہ اٹھو نماز پڑھو ،جبکہ  باقی چار نمازوں میں نہیں پوچھتے کہ نماز پڑھی یا نہیں،اب یہ معلوم کرناہےکہ  اگر اہلیہ کو نماز نہیں پڑنی ہو،کسی مجبوری مثلا ایام میں ہو،  تو کیا ایسی صورت میں وہ جھوٹ بول سکتی ہےکہ نماز پڑھ لی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سسر کو چاہیےکہ وہ شادی شدہ بیٹے کے کمرہ  کا دروازہ بجاکرنماز کےلیے جگائے، اور بیٹے(سائل) کے جاگنے کی صورت میں بہو کو جگانے کی کوشش نہ کریں،تاہم ایسی صورت میں سائل کو چاہیے کہ وہ نماز کے وقت خود اٹھ کربیوی کو جگائے، تاکہ والد کو جگانے کی ضرورت نہ پڑے، البتہ اگر پھر بھی سائل کے والدعادت کے مطابق بہو کو جگانے آئے، اور بہو کوشرعی عذر لاحق ہو، توموقع پر اٹھ  جائے ،تاکہ والدکو تسلی ہوجائے،نیزبہو سسرکی تسلی کےلیے کوئی ایساذومعنی لفظ استعمال کرسکتی ہے، جس سے سسرکی تسلی ہوجائے، اور جھوٹ بھی نہ ہو، شرعی عذر کے موقع پر پاکی کے ایام کی نماز کا خیال کرتے ہوئے، یہ کہہ سکتی ہےکہ "نماز پڑھ لی  ہے" (دل میں یہ ہوکہ پاکی کے ایام میں پڑھ لی ہے)۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله الكذب مباح لإحياء حقه) كالشفيع يعلم بالبيع بالليل، فإذا أصبح يشهد ويقول علمت الآن، وكذا الصغيرة تبلغ في الليل وتختار نفسها من الزوج وتقول: رأيت الدم الآن. واعلم أن الكذب قد يباح وقد يجب والضابط فيه كما في تبيين المحارم وغيره عن الإحياء أن كل مقصود محمود يمكن التوصل إليه بالصدق والكذب جميعا، فالكذب فيه حرام، وإن أمكن التوصل إليه بالكذب وحده فمباح إن أبيح تحصيل ذلك المقصود، وواجب إن وجب تحصيله كما لو رأى معصوما اختفى من ظالم يريد قتله أو إيذاءه فالكذب هنا واجب وكذا لو سأله عن وديعة يريد أخذها يجب إنكارها، ومهما كان لا يتم مقصود حرب أو إصلاح ذات البين أو استمالة قلب المجني عليه إلا بالكذب فيباح، ولو سأله سلطان عن فاحشة وقعت منه سرا كزنا أو شرب فله أن يقول ما فعلته، لأن إظهارها فاحشة أخرى، وله أيضا أن ينكر سر أخيه، وينبغي أن يقابل مفسدة الكذب بالمفسدة المترتبة على الصدق، فإن كانت مفسدة الصدق أشد، فله الكذب، وإن العكس أو شك حرم، وإن تعلق بنفسه استحب أن لا يكذب وإن تعلق بغيره لم تجز المسامحة لحق غيره والحزم تركه حيث أبيح، وليس من الكذب ما اعتيد من المبالغة كجئتك ألف مرة لأن المراد تفهيم المبالغة لا المرات فإن لم يكن جاء إلا مرة واحدة فهو كاذب اهـ ملخصا ويدل لجواز المبالغة الحديث الصحيح «وأما أبو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه» .

قال ابن حجر المكي: ومما يستثنى أيضا الكذب في الشعر إذا لم يمكن حمله على المبالغة كقوله: أنا أدعوك ليلا ونهارا، ولا أخلي مجلسا عن شكرك، لأن الكاذب يظهر أن الكذب صدق ويروجه، وليس غرض الشاعر الصدق في شعره، وإنما هو صناعة وقال الشيخان يعني الرافعي والنووي بعد نقلهما ذلك عن القفال والصيدلاني وهذا حسن بالغ اهـ (قوله قال) أي صاحب المجتبى وعبارته قال - عليه الصلاة والسلام - «كل كذب مكتوب لا محالة إلا ثلاثة الرجل مع امرأته أو ولده والرجل يصلح بين اثنين والحرب فإن الحرب خدعة» ، قال الطحاوي وغيره هو محمول على المعاريض، لأن عين الكذب حرام. قلت: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون} [الذاريات: 10]- وقال - عليه الصلاة والسلام - «الكذب مع الفجور وهما في النار» ولم يتعين عين الكذب للنجاة وتحصيل المرام اهـ قلت: ويؤيده ما ورد عن علي وعمران بن حصين وغيرهما «إن في المعاريض لمندوحة عن الكذب» وهو حديث حسن له حكم الرفع كما ذكره الجراحي " وذلك كقول من دعي لطعام: أكلت. يعني أمس، وكما في قصة الخليل - عليه الصلاة والسلام -، وحينئذ فالاستثناء في الحديث لما في الثلاثة من صورة الكذب، وحيث أبيح التعريض لحاجة لا يباح لغيرها لأنه يوهم الكذب، وإن لم يكن اللفظ كذبا قال في الإحياء نعم المعاريض تباح بغرض حقيقي كتطييب قلب الغير بالمزاح كقوله - صلى الله عليه وسلم - «لا يدخل الجنة عجوز» وقوله «في عين زوجك بياض» وقوله «نحملك على ولد البعير» وما أشبه ذلك."

(كتاب الحظر والإباحة، ٤٢٨/٦، ط:سعيد)

الموسوعۃالفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"طرق الدعوة وأساليبها تتنوع بتنوع ظروف الدعوة، وباختلاف أحوال المدعوين والدعاة، وذلك لأن الدعوة تعامل مع النفوس البشرية، والنفوس البشرية مختلفة في طبائعها وأمزجتها، وما يؤثر في إنسان قد لا يؤثر في غيره، وما يؤثر في إنسان في حال قد لا يؤثر فيه في حال أخرى، فلا بد للداعية من مراعاة ذلك كله والعمل بحسبه، ويجمع ذلك كله قول الله تبارك وتعالى: {‌ادع ‌إلى ‌سبيل ‌ربك ‌بالحكمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتي هي أحسن إن ربك هو أعلم بمن ضل عن سبيله وهو أعلم بالمهتدين}  والحكيم - كما في لسان العرب - المتقن للأمور."

(حرف الدال، ٣٢٣/٢٠،ط:دارالسلاسل)

مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ معارف القرآن میں لکھتےہیں:

"ضرورت کے مواقع پر توریہ کرنا جائز ہے، توریہ ایک تو قولی ہوتاہے،یعنی ایسی بات کہنا جس کا ظاہری مفہوم خلاف واقعہ ہو، اورباطنی مراد مطابق واقعہ۔اورایک توریہ عملی ہوتاہے، یعنی ایساعمل کرنا جس کامقصد دیکھنے والا کچھ سمجھے اوردرحقیقت اس کامقصد کچھ اورہو،اسے ایہام بھی کہاجاتاہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام کاستاروں کودیکھنا(اکثرمفسرین کےقول کےمطابق )ایہام تھا،اوراپنے آپ کو بیمار کہنا توریہ۔

ضرورت کے مواقع پر توریہ کی ی ہدونوں قسمیں خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔"

(معارف القرآن، جلد:7، ص:454،مکتبہ معارف القرآن کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102955

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں