بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوری میں انشورنس کرانے اور زائد پیسوں کے استعمال کا حکم


سوال

سعودیہ عرب میں گاڑی خریدنے پر انشورنس کروانا اور اس کی مد میں ماہانہ کچھ ریال جمع کرانا لازم ہے،اور اگر انشورنس نہ کروائی جائے تو حکومت کی جانب سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے، اگر گاڑی کو کوئی نقصان ہوتا ہے،تو انشورنس کمپنی جمع کرائی ہوئی رقم سے زیادہ رقم ادا کرتی ہے،جس کے لینے یا نہ لینے،یا کم،زیادہ لینے کا اختیار اس بندے کو نہیں ہوتا،بلکہ اس کو وہ پوری رقم لینی ہی پڑتی ہے،تو ایسی صورت میں انشورنس کروانے اور ان پیسوں کے لینے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ انشورنس کرواناایک سودی معاملہ ہےاور ناجائز ہے،کیوں کہ اس میں دیے جانےوالے پیسوں کی حیثیت قرضے کی ہے اور قرض میں دی ہوئی رقم پر زیادہ رقم وصول کرنا،سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے،لیکن اگر واقعۃً حکومت کی پالیسی میں گاڑی خریدنے پر انشورنس کروانالازم ہواور نہ کروانے پر، نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بادلِ ناخواستہ، اس کام کو برا سمجھتے ہوئے انشورنس کرائی جاسکتی ہے،تاہم جتنے پیسے جمع کرائے ہوں اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے،لیکن اگر وہ اضافی رقم، انشورنس کی کمپنی لازمی ادا کرتی ہو،اور اس کو رد کرنے کا اختیار سائل کو حاصل نہ ہو تو اس صورت میں ،ماہانہ جمع کرائی ہوئی رقم سے زائد اضافی رقم کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے،اور اس کو بلا نیتِ ثواب صدقہ کرنا واجب ہے۔

"رد المحتار"میں ہے:

"‌لا ‌بأس ‌بالرشوة ‌إذا خاف على دينه والنبي  عليه الصلاة والسلام كان يعطي الشعراء ولمن يخاف لسانه...قوله إذا خاف على دينه عبارة المجتبى لمن يخاف، وفيه أيضا دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع."

(ص:424،ج:6،کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"أمر ‌السلطان إكراه وإن لم يتوعده، وأمر غيره لا إلا أن يعلم المأمور بدلالة الحال أنه لو لم يمتثل أمره يقتله أو يقطع يده أو يضربه ضربا يخاف على نفسه أو تلف عضوه منية المفتي، وبه يفتى."

(ص:132،ج:6،کتاب الإكراه،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"رجل دفع إلى فقير من المال الحرام شيئا يرجو به الثواب يكفر، ولو علم الفقير بذلك فدعا له وأمن المعطي كفرا جميعا.ونظمه في الوهبانية وفي شرحها: ينبغي أن يكون كذلك لو كان المؤمن أجنبيا غير المعطي والقابض، وكثير من الناس عنه غافلون ومن الجهال فيه واقعون."

(ص:292،ج:2،کتاب  الزكاة،باب زكاة الغنم،ط:سعيد)

"ألبناية في شرح الهداية"میں ہے:

"القيمة دين في ذمته- وهذه الغلة ملكه، ولكن هي ‌واجب ‌التصدق لخبثها."

(ص:129،ج:21،کتاب الغصب،ط:مرکز الدراسات الإسلامیة)

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال."

(ص:117،ج:3،کتاب البیوع،الباب التاسع،ط:دار الفکر،بیروت)

وفيه أيضا:

"قال محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف: إن أبا حنيفة رحمه الله تعالى كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."

(ص:220،ج:3،کتاب البیوع،الباب الثامن عشر فی السلم،ط:دار الفکر،بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں