بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوری میں عدالت سے خلع لینا


سوال

ایک لڑکی کا نکاح آج سے چھ سال پہلے ہوا تھا نکاح کے وقت لڑکی عاقل بالغ تھی، لیکن رخصتی سے قبل لڑکی نے شادی سے انکار کر دیا تو لڑکے نے دوسری شادی کرلی ہے اور اس سے ایک بچی بھی ہے، اور وہ پہلی والی لڑکی کو خلع نہیں دے رہا ہے، خلع کے لیے پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کر رہا ہے اور لڑکی کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے، لڑکی انتہائی غریب گھر سے ہے، لڑکی کا والد وفات پاگیا ہے، ایک بھائی ہے، وہ مزدوری کر کے بڑے مشکل سے گھر کا خرچہ چلاتا ہے اور حق مہر صرف پانچ ہزار روپے ہے، اور لڑکا لڑکی کو کسی قسم کا کوئی خرچہ بھی نہیں دے رہا، لڑکا لڑکی کو اس سے شادی نہ کرنے کی سزا کے طور پر ایسے ہی لٹکا کے رکھنا چاہتا ہے، لڑکے کو ان ہی کے کچھ رشتے دار علماءِ کرام نے بھی سمجھایا ہے، لڑکی کی طرف سے بھی کچھ لوگوں نے خلع کے لیے کوششیں کی، لڑکا کسی کی بات نہیں مان رہا ہے، کیا اس صورت میں لڑکی عدالت سے خلع کی ڈگری لے سکتی ہے کہ نہیں؟ لڑکی کے جوانی کے چھ سال اس میں گزر گئے ہیں؟ برائے مہربانی لڑکی کو اس میں سے نکلنے کے لیے شرعی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب نکاح کے بعد لڑکی کی طرف سے رخصتی سے انکار کی وجہ سے رخصتی نہیں ہوئی تو لڑکی نان و نفقہ کی حق دار نہیں بنی؛ کیوں کہ شوہر کے ذمہ بیوی کے حقوق تب ہی عائد ہوتے ہیں جب لڑکی رخصت ہوکر تسلیمِ نفس کرے۔

   لہٰذا مذکورہ صورت میں لڑکی کو عدالت سے رجوع کرکے تنسیخِ نکاح کا فیصلہ حاصل کرنے کا شرعاً اختیار نہیں؛ کیوں کہ جو شدید مجبوری (کہ شوہر کا نان ونفقہ ادا نہ کرنا یا بیوی پر ظلم وستم کرنا) تنسیخ نکاح کے لیے ضروری ہے اور وہ اس میں متحقق نہیں۔ ہاں لڑکے کو طلاق یا خلع پر آمادہ کرکے لڑکی آزاد ہوسکتی ہے۔

الغرض لڑکا اگر گھر بسانا چاہتا ہے تو گھر بسانے کی راہ اپنائی جائے یا پھر علاقائی پنچائیت میں معاملہ پیش کرکے شوہر سے طلاق یا خلع حاصل کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

  (ج3/441، باب الخلع، ط: سعيد)

مبسوط سرخسی میں ہے:

فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضًا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي.

(ج6/ص171، باب الخلع، ط: دارالمعرفة)

وفي الهندية:

فإن كان الزوج قد طالبها بالنقلة، فإن لم تمتنع عن الانتقال إلى بيت الزوج فلها النفقة، فأما إذا امتنعت عن الانتقال، فإن كان الامتناع بحق بأن امتنعت لتستوفي مهرها فلها النفقة، وأما إذا كان الامتناع بغير الحق بأن كان أوفاها المهر أو كان المهر مؤجلا أو وهبته منه فلا نفقة لها كذا في المحيط. 

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول، ج1/ص545، ط: ماجدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106201164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں