میں چین میں پڑھائی کی غرض سے رہتا ہوں، یہاں مساجد بہت دور ہیں کہ پانچ وقت آنا جانا ممکن نہیں؛ اس لیےجمعہ کے علاوہ باقی نمازیں اپنے ہوسٹل کے کمروں میں ادا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں کہ جب دوست سارے چھوٹے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوں، ایسی صورت میں کوئی ایک دوست جماعت کی امامت کر سکتا ہے؟ کیا گناہ کبیرہ کا ارتکاب امامت کا حق ختم کر دیتا ہے؟ کیا سارے گناہ گار انفرادی نماز ادا کریں یا ساروں میں سے کوئی ایک امامت کر سکتا ہے؟ ایک مجھے کوئی امامت کا کہے (میرے پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کی وجہ سے ) لیکن میرے سر گناہ کبیرہ ہو ں، تو میں کیسے امامت سے منع کروں؟
واضح رہے کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہے اور فاسق کی امامت مکروہِ تحریمی ہے، لیکن اگر کسی جگہ فاسق کے علاوہ کوئی اور امام میسر نہ ہو تو فاسق کی اقتدا میں نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اس سے بہتر کوئی دوسرا شخص امامت کے لیے موجود نہ ہو تو سائل نماز پڑھا دے، امام بننے سے منع نہ کرے۔
الفتاوى الهندية - (1 / 84):
"ولو صلى خلف مبتدع أو فاسق فهو محرز ثواب الجماعة لكن لاينال مثل ما ينال خلف تقي، كذا في الخلاصة". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109200446
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن