مجبوری کے وقت بینک سے لون لینے کا کوئی جوازہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ سود لینا اور سود دینا دونوں قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں، حدیثِ مبارک میں سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے، اور بینک سے ملنے والا قرض سراسر سود پر مشتمل ہوتا ہے، اور بینک سے قرض لینا سودی معاملہ ہے، اور سودی قرض لینا جائز نہیں ۔
نیز شدید مجبوری کی صورت میں سودی قرض لینے کی اجازت دی ہے، معمولی مجبوری میں یہ گنجائش نہیں ہے، اس لیے شدید مجبوری کی بغیر بینک سے قرض لینا شرعًا جائز نہیں ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر گزارے کی کوئی بھی صورت موجود ہو تو سودی قرضہ لینا حرام ہوگا، اس لیے مجبوری کی صورت واضح کرکے اس کا حکم دریافت کرلیجیے۔
باقی ضرورت کے لیے کسی رشتہ دار یا شناسا شخص سے قرض لیا جاسکتا ہے، اور اگر کوئی بندوبست نہ ہو تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے قناعت کرنا چاہیے، کیوں کہ قرض لینے کے بعد اس قرض کی ادائیگی کا بھی تو انتظام کرنا ہوگا، اس وقت جیسے محنت کرکے حلال رقم سے ادائیگی کا انتظام کیا جائے گا، ابھی سے کوشش کرلی جائے تاکہ سودی قرض لینے کی ہی نوبت نہ آئے، اور اگر بعد میں ادائیگی میں حلال کا اہتمام نہ ہو تو یہ گناہ در گناہ ہوجائے گا، کہیں اس سے زیادہ پریشانی نہ ہوجائے، اور سودی قرضہ اتارنے کے لیے پھر سودی قرضے لینے کا سلسلہ نہ کرنا پڑجائے، اور آدمی اگر حرام سے بچنے کے لیے ہمت بلند رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا } [الطلاق: 2، 3]
حدیث مبارک میں ہے:
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".
(الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکاۃ المصابیح، باب الربوا، ص: 243، قدیمی)
مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءا أيسرها أن ینکح الرجل أمه».
(1/246، باب الربوا ، ط؛ قدیمی)
اعلاء السنن میں ہے:
"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".
(14/513، باب کل قرض جر منفعۃ، کتاب الحوالہ، ط؛ ادارۃ القرآن)
الاشباہ والنظائر میں ہے:
وفي القنية والبغية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح (انتهى)".
(ص؛93، الفن الاول، القاعدة الخامسة، ط:قدیمی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144111201159
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن