بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوری کی حالت میں ہاتھ یا جسم کا کوئی حصہ لگائے بغیر شہوت پوری کرنا


سوال

ایک لڑکے کی شادی نہیں ہو رہی ہے اور اس کے لیے شہوت کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا ہو، اور وہ گناہوں کے قریب نہیں جا رہا ہے ، جیسے زنا مشت زنی فحش ویڈیوز وغیرہ ، روزہ بھی نہیں رکھ پا رہا ہے اور شہوت کنٹرول کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے، تو اس کے لیے اس چیز کی گنجائش ہے کہ ہاتھ اور جسم کا کوئی بھی حصہ لگائے بغیر کسی اور چیز ، (آج کل شہوت پوری کرنے جو بے حیائی کے اوزار ایجاد ہوئے ان کے علاوہ) کے ذریعے سے اپنی شہوت پوری کر سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں اپنی بیوی یا زر خرید باندی کے علاوہ کسی صورت میں شہوت پوری کرنے کی اجازت نہیں ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے:

"وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ (5) إِلَاّ عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغى وَراءَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ العادُونَ (7)" [المؤمنون: 5-7]          ترجمہ:  ’’اور جو اپنی شرم گاہوں کی (حرام شہوت رانی سے) حفاظت رکھنے والے ہیں۔   لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی (شرعی) لونڈیوں سے (حفاظت نہیں کرتے) کیوں کہ ان پر (اس میں) کوئی الزام نہیں۔  ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی کا) طلبگار ہو ایسے لوگ حدِ (شرعی) سے نکلنے والے ہیں۔ ‘‘

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اس کے علاوہ طلبگار ہو اس میں زنا و لواطت و وطی بہائم و عاریت جواری اجماعا اور بعض کے نزدیک استمنا بالید بھی داخل ہے۔ اور اگر یہ آیت مدنی ہو تو حرمت متعہ پر بھی اس سے استدلال صحیح ہے۔‘‘

(سورۃ المومنون،2/538، ط: رحمانیہ)

نیز جس طرح ہاتھ وغیرہ سے شہوت کے ساتھ منی کا اخراج ناجائز ہے اسی طرح ہاتھ یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ لگائے بغیر بھی ممنوع اور ناجائز ہےاور شریعتِ مطہرہ میں اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔

مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ جلد از جلد شادی کا انتظام کرے، شادی میں رکاوٹ عام طور پر معاشرے میں رائج بے انتہاء اخراجات بنتے ہیں، ان سے بچنےکا طریقہ یہ ہے کہ کسی متوسط یا غریب گھرانے کی دین دار لڑکی سے سادگی کے ساتھ شادی کرے،  حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس نکاح میں بہت زیادہ برکت ہے جو بوجھ کے لحاظ سے ہلکا ہو۔

مسند احمد میں ہے:

"24529 - حدثنا عفان، قال: حدثنا حماد بن سلمة، قال: أخبرني ابن الطفيل بن سخبرة، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ‌إن ‌أعظم ‌النكاح بركة أيسره مؤونة " .

(‌‌‌‌مسند النساءـ مسند الصديقة عائشة بنت الصديق رضي الله عنها، 41/ 75 ط: الرسالة)

الدر المختار میں ہے:

"وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه".

حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(قوله: ولو خاف الزنى إلخ) الظاهر أنه غير قيد بل لو تعين الخلاص من الزنى به وجب؛ لأنه أخف وعبارة الفتح فإن غلبته الشهوة ففعل إرادة تسكينها به فالرجاء أن لا يعاقب اهـ زاد في معراج الدراية وعن أحمد والشافعي في القديم الترخص فيه وفي الجديد يحرم ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.

بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم".

(‌‌‌‌كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، 2/ 399، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں