بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوری میں قرض لینے کا حکم


سوال

مجبوری میں لون لینا کیسا ہے؟ قرض بھی دیناہے، گھر بھی بنانا ہے،بھائیوں کی شادیاں کروانی ہیں،قرض والوں نے کافی پریشان کیا ہوا ہے؟

جواب

بینک  مختلف کاموں کے لیے جو قرضہ دیتے ہیں وہ سودی قرضہ ہوتا ہے،   جس طرح سودی قرضہ دینا حرام ہے ،اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے، لہذااگر کسی شخص کے پاس اتنی رقم نہ ہو جس سے وہ ذاتی مکان خرید سکے اور قسطوں پر خریدنے کی بھی کوئی جائز صورت نہ بن سکے تو بھی ایسے شخص کے لیے سودی قرضہ لینے کی اجازت نہیں ہے، اگر  کسی سے غیر سودی قرض مل جائے تو آدمی لے لے، بصورتِ دیگر مکان بنانےکےلیے،بھائیوں کی شادی کےلیے رقم جمع کرنا شروع کر دے اور  جب تک رقم جمع نہ ہو جائے اُس وقت تک اپنی حیثیت کے مطابق حالیہ مکان میں رہیں، اورشادی بیاہ کے مروجہ رسومات سے اجتناب کرتےہوئےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےارشادمبارک پرعمل کرے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے :

حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے زیادہ برکت والانکاح وہ ہے ،جس میں محنت ،مشقت اورخرچ کم ہو۔

لہذاشرعی حدود میں رہ کر کفایت شعاری سے کام لے، پھر جب پیسے جمع ہو جائیں تو اُن پیسوں سے مکان بنالے۔

نیزاس دوران جو تکالیف آئیں ان پر صبر کرنا چاہیے؛ کیوں کہ مؤمن کی نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت پر ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جس حال میں راضی ہوں اور جس عمل کے نتیجے میں آخرت کی لازوال نعمتوں کا وعدہ ہو اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے ان شاء اللہ دنیا کے مصائب ہیچ معلوم ہوں گے۔

سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]."

"ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔" (بیان القرآن )

سود کے ایک درہم کو رسول اللہﷺ نے 36مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا ابن فضيل، عن ليث، عن الحكم، عن علي، قال: «‌لدرهم ‌ربا أشد عند الله تعالى من ست وثلاثين زنية ."

(‌‌أكل الربا وما جاء فيه ج : 4 ص : 448 ط : دارالتاج ،لبنان)

نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے،سودی معاملے کی سنگینی کا اندازا   اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں۔ 

  خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے، نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے اور احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت  کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں،عموماً جو لوگ سود پر قرض لے کر اپنے کام  کرتے ہیں، ساری زندگی سود سے پیچھا چھڑانے میں گزرجاتی ہے، بلکہ بکثرت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ اپنے اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتاہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں