میں قسطوں پر موبائل فروخت کرنے کا کاروبار کرتا ہوں، میرے پاس کچھ مجبور گاہک نقد پیسے بطور ادھار مانگنے کے لیے آتے ہیں، ان کی مختلف مجبوریاں ہوتی ہیں، مثلاً: مریض کے علاج یا شادی کے اخراجات یا کسی قرض خواہ کا قرض اتارنے کا معاملہ ہوتا ہے، بہرحال میں انہیں نقد پیسے اُدھار پر دینے سے انکار کرتا ہوں، تاکہ سود سے بچ سکوں، اس کی بجائے میں انہیں موبائل قسطوں پر فروخت کردیتا ہوں، مثلاً: گاہک کو ایک لاکھ روپے کی ضرورت ہوتی ہے، تو میں ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی قیمت والا موبائل قسطوں پر اسے 2 لاکھ 40 ہزار روپے میں بیچ دیتا ہوں، پھر وہ مارکیٹ میں جاکر موبائل فروخت کردیتا ہے، اور نقد پیسے حاصل کرلیتا ہے، چوں کہ مارکیٹ کے اصول کے مطابق وہ موبائل دکاندار ایک ہزار کاٹ کر ایک لاکھ 19 ہزار روپے میں خریدتا ہے، نیز وہ دکاندار بھی ہمارا جاننے والا ہوتا ہے۔
پھر ان نقد پیسوں میں سے میں ایک لاکھ روپے اسی کے پاس چھوڑ دیتا ہوں، باقی 15 ہزار روپے بطورِ پہلی قسط کے میں کاٹ لیتا ہوں، اس کے علاوہ 3 ہزار روپے ڈاکومینٹیشن اور دو ہزار روپے منشی کی کمیشن کے طور پر اس سے کاٹے جاتے ہیں، اور یہ فکس ہے، ہر گاہک کے ذمّے ہے، تو فی الحال اس کی ضرورت کے مطابق ایک لاکھ روپے اسے مل جاتے ہیں، اور موبائل کی قیمت 2 لاکھ چالیس ہزار روپے میں سےاب دو لاکھ 25 ہزار روپے اس کے ذمّے باقی رہ جاتے ہیں، جو اس نے آئندہ 12 ماہ میں ماہانہ قسطوں میں مکمل ادا کرنے ہوتے ہیں۔
یہ مکمل طریقہ کارگاہک کو پہلے سمجھا دیا جاتا ہے، یا اس کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے، اور یہ اس کی رضامندی سے ہوتا ہے۔
کیا قسطوں پر موبائل بیچنے کا یہ طریقہ شرعًا جائز ہے؟ اگر اس میں کوئی شق شرعًا جائز نہ ہو تو اس کو شرعی لحاظ سے کیسے درست کیا جائے؟
میں سود کو حرام سمجھتا ہوں، اور اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہتا ہوں۔ بعض علماء نے بتایا کہ یہ بیعِ عینہ ہے، جس کو کرنے پر حدیث شریف میں وعید وارد ہوئی ہے، کیا واقعی یہ بیعِ عینہ میں داخل ہے؟ اور بیعِ عینہ مکروہ ہے یا حرام؟
برائے مہربانی اس بارے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں خرید و فروخت کا مذکورہ طریقہ کار شرعًا ناجائز اور ”بیعِ عینہ“ ہی کی ایک صورت ہے، جو کہ سود خوری کا ایک بدترین راستہ ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا ہے، جیسا کہ ”سنن ابی داؤد“ میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے:
"عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد، سلط الله عليكم ذلا، لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم»."
(كتاب البيوع، باب في النهي عن العينة، رقم الحديث:3462، ج:3، ص:274، ط: المكتبة العصرية، صيدا بيروت)
ترجمہ: ”جب تک تم بیعِ عینہ کرتے رہوگے، اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے، اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے، اور جہاد چھوڑ دوگے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، اور اس وقت تک تم پر مسلط رہے گی، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔“
نیز مذکورہ طریقہ کار میں جہاں ایک ضرورت مندکی حاجت پوری کرنے کے بجائے دنیاداری اور مفاد پرستی کا عنصر غالب ہے، وہیں قرض دینے کی نیکی اور حسنِ سلوک سے اعراض بھی لازم آتا ہے، کیوں کہ اصل مقصود ضرورت مند کی حاجت روائی ہونی چاہیے۔
نیز قرض پر مشروط نفع اٹھانا شرعا ممنوع ہے، مسئولہ صورت میں موبائل کی خرید و فروخت مقصود نہیں، اصل مقصد نقدی کا حصول ہے، اور براہِ راست قرض دے کر نفع حاصل کرنے سے بچنے کے لیے خرید و فروخت کا مذکورہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے، جو کہ سراسر ناجائز اور واجب الترک ہے، اسے معمول بنانا درست نہیں ہے، اسی طرح اس سے نفع حاصل کرنا بھی حلال نہیں ہے۔ لہٰذا اگر اس طرح کا عقد کرلیا ہے تو اسے فوری طور پر ختم کردینا چاہیے، اور اللہ رب العزت سے اپنے اس عمل پر سچے دل سے توبہ کرنا ضروری ہے، اور آئندہ کےلیے اس عمل سے بچنے کا خوب اہتمام کیا جائے، اور اگر کوئی ضرورت مند قرض کے لیے آئے تو وسعت ہو تو اسے قرضِ حسنہ ہی دیا جائے، احادیثِ مبارکہ میں قرض کی صورت میں بھی کسی کے ساتھ تعاون کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے:
"عن البراء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من منح منحة لبن أو ورق أو هدى زقاقا كان له مثل عتق رقبة». رواه الترمذي."
(مشكاة المصابيح، كتاب الزكاة، باب فضل الصدقة، الفصل الثاني، رقم الحدیث:1917، ج:1، ص:598، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ: ”حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص دودھ کا جانور کسی کو عاریۃً دے یا چاندی (یعنی روپیہ وغیرہ) بطورِ قرض دے یا کسی راستہ بھولے ہوئے اور نابینا کو کوچہ و راستہ میں راہ بتائے تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کی مانند ثواب ہو گا۔“
ایک دوسری روایت میں ہے:
"عن عمران بن حصين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان له على رجل حق، فمن أخره، كان له بكل يوم صدقة."
(حديث عمران بن حصين، رقم الحدیث:19977، ج:33، ص:188، ط:مؤسسة الرسالة بیروت)
ترجمہ: ”حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کا کسی دوسرے بھائی پر کوئی حق (قرضہ وغیرہ) واجب الادا ہو اور وہ اس مقروض کو ادا کرنے کے لیے دیر تک مہلت دے دی تو اس کو ہر دن کے عوض صدقہ کا ثواب ملے گا۔“
رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:
مطلب في بيع العينة
"(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، ... وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال - عليه الصلاة والسلام - «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم»."
(باب الصرف، ج: 5، ص: 273 ٥ / ٢٧٣، ط: دار الفكر)
فتح القدیر میں ہے:
"ثم الذي يقع في قلبي أن ما يخرجه الدافع إن فعلت صورة يعود فيها إليه هو أو بعضه كعود الثوب أو الحرير في الصورة الأولى، وكعود العشرة في صورة إقراض الخمسة عشر فمكروه، وإلا فلا كراهة إلا خلاف الأولى على بعض الاحتمالات كأن يحتاج المديون فيأبى المسئول أن يقرض بل أن يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشر إلى أجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة، ولا بأس في هذا فإن الأجل قابله قسط من الثمن والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب، فإن تركه بمجرد رغبة عنه إلى زيادة الدنيا فمكروه أو لعارض يعذر به فلا، وإنما يعرف ذلك في خصوصيات المواد وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة."
(كتاب الكفالة، ج:7، ص:213، ط:دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605100024
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن