بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبور کی طلاق كا حكم


سوال

 میرےبہنوئی سے اس کے  گھر والوں نے جبراً ،جان کی دھمکی  دے کر،زبردستی طلاق ثلاثہ اسٹامپ پیپرپر سائن کروا  ئے،کیوں کہ وہ  طلاق دینا نہیں چاہتا تھا ،"جب کہ اس نے زبانی کُچھ نہیں کہا"، میر ےبہنوئی نے اپنی پہلی بیوی کو بتائے بغیر میری بہن سے دوسرا نکاح کیا،اس کی بیماری ڈپریشن، آٹو امیون گیٹرائٹس وغیرہ کی وجہ سے، ان بیماریوں کی وجہ سے اس کی پہلی بیوی بچوں کو بھی دیکھ بھال نہیں کر سکتی ،اس کی پہلی بیوی ان بیماریوں کی وجہ سے خود کشی کی کوشش بھی کر چکی ہے،جب میرے بہنوئی  نے اس پہلی بیوی کو دوسرے نکاح کا بتایا تو اس نے کہرام مچا دیا ،اور سارے گھر والوں کو اکٹھا کردیا ،میرے بہنوئی کی  پہلی بیوی کے والدبڑے عہدےپر  ہیں، اُنہوں نے میرے بہنوئی کو جان کی ،سرکاری نوکری سے نکلوانے کی،خاندان والوں سے قطع تعلق کی  ہر طرح کی دھمکی دی،یہ سارے میسجز اس کے شوہر نے میری بہن کو واٹس ایپ بھی کیے ،کہ اسے اتنا مجبور کیا جا رہا ہے کے اس کے شوہر کو خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ،میرے بہنوئی کو اس کے سسر نے میری بہن کو بھی مارنے کی دھمکی دی، کہ اسے کہیں غائب کر کے مار دیں گے، کُچھ پتہ نہیں چلے گا ،اور ان کی باتوں سے اندازہ ہو گیا تھا وہ کچھ بھی کر سکتے ہے، اس کے شوہر نے یہ میسیج بھی کیا  کہ میں تمہارے بھائی ، والد ، والدہ اور بہن کو کچھ ہونے نہیں دوں گا ،میرے بہنوئی  کو میرے بھائی کی سرکاری نوکری سے نکلوانے کی دھمکیاں دی گئیں ، کیا واقعی قرآن اور حدیث کی نظر میں جبر ، ظلم کے زور پر تحریری طلاق واقع ہوجاتی ہے ؟جب کے اس کے شوہر نے زبانی کچھ نہیں کہا ،آپ سے گزارش ہے کہ اِس پر روشنی ڈالیے۔ 

جواب

واضح رہے کہ اگر اکراہ(مجبور کرنا)  کرنا اس طور پر ہو جس میں صرف اصرار ،ترکِ تعلق کی دھمکی ،گالم گلوچ وغیرہ یعنی کوئی ایسی صورت ہے جس میں جان سے مارنا،یا اعضاء کے تلف کی کوئی صورت نہ ہو،(جس کو اکراہِ ناقص بھی کہتے ہیں ) تو ایسا شخص شرعاً مجبور شمار نہیں ہوتا ایسا شخص قولًایا تحریراً  طلاق دے دے، تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

اور اگر مجبور سے مراد ایسا شخص ہے جسے طلاق نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے کی ،یا کسی عضو کے ضائع کرنے کی دھمکی دی گئی ہو ،اور دھمکی دینے والاموقع پراپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے پر قادر بھی ہو،(جس کو اکراہِ تام بھی کہتے ہیں )تو ایسی صورتِ حال میں اگر یہ مجبور( مکرہ) شخص تحریری طلاق دے دے تو اس کی تحریر کا اعتبار نہیں ہوگا اور طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر اس صورتِ حال میں اس نے زبانی طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع ہوجائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ  کے بہنوئی  پر اکراہِ تام کیا گیا تھا (یعنی   والد  اس بات پر قادر بھی ہیں، کہ اگر ان کے بیٹے نے اپنی بیوی کو طلاق نہ دی ،تو وہ واقعی اس کو جان سے مار دیں گے )تو اس  صورت میں صرف طلاق کے اسٹام پیپر پے جان  سے مارنے کی  دھمکی کے خوف سے سائن (دستخط )کیے تو ایسی طلاق واقعی نہیں ہو ئی ،دونوں میاں بیوی کا نکاح تا حال برقرا ر ہے ۔

لیکن اگر سائلہ کے بہنوئی پر اکراہِ تام نہیں کیا گیا تھا ( یعنی  صرف اصرار ،گالم گلوچ ترکِ تعلق کی دھمکی  تھی ،جان یا عضو کے تلف کرنے پر وہ  قادر نہیں تھے)اور پھر  طلاق  ثلاثہ کے اسٹام پیپر پر دستخط کیے تو  اس  سے سائلہ کی بہن کی  پرتین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،اوروہ حرمت مغلظہ کے ساتھ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے ،دونوں کاایک ساتھ رہنا جائز نہیں ، عورت کی عدت تین ماہواریاں ہیں ،بشرطیکہ حاملہ نہ ہو،حاملہ  ہونے کی  صورت میں عدت وضع حمل (بچہ کی پیدائش)ہے،عدت مکمل ہونے کے بعدسائلہ کی بہن آزادہوجائے گی۔

 

 فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرًا ومعنونًا مثل ما يكتب إلى الغائب، وغير مرسومة أن لايكون مصدرًا ومعنونًا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لايمكن فهمه وقراءته، ففي غير المستبينة لايقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا، وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لاتخلو إما إن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة."

(کتاب الطلاق،ج:1 ،ص:378 ، ط:رشیدیة)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"وأنواعها حيض، وأشهر، ووضع حمل كما أفاده بقوله (وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)ومنه الفرقة بتقبيل ابن الزوج نهر (بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية."

(کتاب الطلاق،باب العدۃ ج:3،ص:505، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"( وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد ."

(کتاب الإكراه ،ج:5 ،ص:35 ،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية."

(كتاب الطلاق ،ج:3 ،ص: 236 ،ط: سعید)

دوسری جگہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."

(کتاب الطلاق،ج:1،ص:473،ط:رشیدیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412101177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں