بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوی کی صورت میں بینک سے سودی معاملہ کرنا


سوال

یورپی ممالک میں اپنا گھر خریدنے میں کافی پیچیدگیاں اور دشواریاں ہوتی ہیں، اول یہ کہ آپ یک مشت اپنا گھر خریدیں تو مختلف حکومتی حکام سوال جواب کے لئے طلب کر لیتے ہیں کہ  اتنا پیسہ کہاں سے آیا یا کیسے کمایا؟؟ اسکا ٹیکس ادا کیا یا نہیں؟؟ وغیرہ وغیرہ ان سب سوالوں کے جواب دینا کافی مشکل ہو جاتا ہے ،  بصورتِ دیگر بینک کے ذریعے گھر خریدنا پڑتا ہے اور اس میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ سود دینا پڑتا ہے،سودی معاملہ کے بغیربینک کے ذریعے گھر خریدنا ناممکن ہے۔ اور کراۓ کا مکان لینے کی صورت میں کرائے کے فلیٹ میں سب سے بڑی دشواری و قباحت یہ کہ گھر کی پردہ داری کا اہتمام ناممکن ہے، کیونکہ وہاں مسلم و غیر مسلم سب مختلف فلیٹس میں اکٹھے رہتے ہیں،   تو کیا ایسی صورت میں بینک کے ذریعے (سودی معاملہ کر کے) گھر خریدنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے بینک  کے ذریعے سود ی معاملہ کرکے گھر خریدنا جائز نہیں بلکہ سائل کو چاہیے کہ اپنا گھر خرید نے کی کوئی صورت ممکن ہو تو اپنا ذاتی گھر خرید کر رہے اور اگر گھر خریدنے میں دشواری ہو تو کراۓ پر رہے اور پر دہ وغیرہ کی ہر ممکن کوشش کرے ، پردہ وغیرہ کی دشواری کی وجہ سے بینک سے سودی معاملہ کرنا اور گھر خریدنا جائز نہیں ہے۔

ہاں اگر کہیں سے غیر سودی قرض ملتا ہو تو رہائش کی ضرورت کے لیے بلاسود قرض لینا جائز ہے، تاہم جلد ادائیگی کی سعی کرنی چاہیے۔

قرآن کریم میں ہے:

"{ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}."[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

ترجمہ:" اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔" (بیان القرآن )

سود کے ایک درہم کو رسول اللہﷺ نے 36مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔حدیث شریف میں ہے:

 ’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘.

(دار قطني)

      مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ینکح الرجل أمه»."

(1/246، باب الربوا ، ط؛ قدیمی)

نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے۔ سودی معاملے کی سنگینی کا اندازا  اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں۔     خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے۔ نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے اور احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت  کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، عموماً جو لوگ سود پر قرض لے کر اپنے کام  کرتے ہیں، ساری زندگی سود سے پیچھا چھڑانے میں گزرجاتی ہے، بلکہ بکثرت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ اپنے اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتاہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں