بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت پر 20 گرم سونے کےقرض کا دعوی


سوال

میرے والد کے انتقال کے ۹ ماہ بعد ایک بندہ آتا ہے اور کہتا ہے آپ کے والد نے مجھ سے ۳۶ گرام سونا قرض لیا تھا  اور تقریبًا ۲۰ گرام سونا واپس بھی کردیا تھا، اب باقی کا آپ لوٹاؤ،  نہ  اس کے پاس کوئی  لکھت ہے،  نہ کوئی  گواہ،  اور وہ بندہ تب بھی آتا تھا جب والد صاحب علیل تھے،  تب بھی اس نے کوئی  مطالبہ نہیں کیا اور اب آکرمطالبہ کرتاہے، اب اس بارے میں مفتیانِ کرام کیا فرماتےہیں ،آیا ہمیں اس کا قرض ادا کرنا چاہیے نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں دعویٰ کرنے والے پرگواہوں کا پیش کرنالازم ہے ،اور اگر مدعی (دعویٰ کرنےوالے)کے پاس گواہ نہ ہوں تومدعی علیہ(جس پر دعویٰ کیا جائے)سے قسم لی جائے گی۔لہذاجواشخص  میت پرقرض یاکسی اورچیز کادعویٰ کررہے ہیں اگران کے پاس اپنے اس دعویٰ پر گواہ نہ ہوں،اور میت کے ورثاء میں سے کوئی شخص ان کے  دعویٰ کااقراربھی نہیں کرتاتواس صورت میں  محض دعویٰ کے ذریعہ  قرض وصول نہیں کیاجاسکتا،بلکہ شرعی طور پر یہ دعویٰ کرنے والے افراد  میت کے ورثاء سے حلف لیں گے  کہ انہیں اس قرض کا علم نہیں اور نہ میت نے انہیں بتایاہے،اگر ورثاء اس بات پر حلف اٹھالیتے ہیں تو دعویٰ کرنے والوں کا دعویٰ ساقط ہوجائے گا۔ اور اگرمیت کے ورثاء حلف اٹھانے سے انکار کرتے ہیں  تو دعویٰ ثابت  ہوجائے گا اور مرحوم کے ترکہ میں سے  ادائیگی لازم ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں   مرحوم پر36 گرام سونے  میں سے بقایا 16 گرام سونے کا دعویٰ کرنے والے  کے پاس اگر شرعی گواہ نہیں ہیں اور میت کے ورثاء میں سے کوئی ان کے قرض کی رقم کااقرار بھی نہیں کرتاتو ایسی صورت میں مرحوم کے ورثاء پر عدم علم کی قسم آئے گی کہ مرحوم کے ورثاء اس بات پر قسم اٹھائیں  گے کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ مرحوم نے اتنا سونا لیا تھا، اس قسم کے بعد  مدعی کا دعوی ساقط ہوجائے گا،  اور اگر اقرار کر لیتے ہیں تو مذکورہ سونا، یا اس کی مالیت کی رقم مرحوم کے ترکہ سے ادا کرنا لازم ہو گا۔ 

فتاوی ہندیہ  میں ہے: 

'وإن لم تکن للمدعی بینة وأراد استحلاف هذا الوارث یستحلف علی العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالی - بالله ما تعلم أن لهذا علی أبیک هذا المال الذی ادعی وهو ألف درهم ولا شیء منه،فإن حلف انتهی الأمر وإن نکل یستوفی الدین من نصیبه'.

(کتاب ادب القاضی، الباب الخامس والعشرون فی اثبات الوکالة والوراثة وفی اثبات الدین، ج: 3، صفحہ: 407، ط: دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں