بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو دفنانے کے بعد قبر پر اذان دینا درست نہیں ہے


سوال

میت کو دفنانے کے بعدقبر پر اذان دینا کیسا ہے؟

جواب

میت کو دفنانے کے بعدقبر پر اذان درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌باب الأذان

(هو) لغة الإعلام. وشرعا (إعلام مخصوص) لم يقل بدخول الوقت ليعم الفائتة وبين يدي الخطيب (على وجه مخصوص بألفاظ كذلك) أي مخصوصة........................وهو سنة) للرجال في مكان عال (مؤكدة) هي كالواجب في لحوق الإثم (للفرائض) الخمس (في وقتها ولو قضاء) لأنه سنة للصلاة حتى يبرد به لا للوقت (لا) يسن (لغيرها) كعيد.

(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، ج: 1، ص: 385، ط: سعيد)

وفيها أيضا:

"[تنبيه]

في الاقتصار على ما ذكر من الوارد إشارة إلى أنه لا يسن الأذان عند ‌إدخال ‌الميت في قبره كما هو المعتاد الآن، وقد صرح ابن حجر في فتاويه بأنه بدعة. وقال: ومن ظن أنه سنة قياسا على ندبهما للمولود إلحاقا لخاتمة الأمر بابتدائه فلم يصب. اهـ."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:235، ط: سعيد)

امدادالفتاوی جدید  میں ہے:

"قبر پر اذان دینا ثابت نہیں

سوال(۳۲۴۴) قدیم ۳۰۱/۵ ان دنوں شہر سورت میں میں نے ایسا مسئلہ بیان کیاکہ بعد دفن مردہ کے قبر پر اذان کہنا چوں کہ وہاں شیطان آتا ہے، قبر کے اندر جب مؤذن اذان دیتا ہے قبر پر تو مرد ہ مؤذن کی اذان سن کر جواب دیتا ہے تو شیطان بھاگتا ہے اور اذان کہنا سنت ہے بلکہ سیورام پور واور حسن جی صاحب کے مقبرہ پر اذان بعد دفن کی گئی ، جس پر اہل سورت کے علماء سے دریافت کیا تو انہوں نے تلقین وتسبیح وتحمید و تکبیر پڑھنے کو کہا اور اذان کا کہنا فقہاء نے کہیں نہیں لکھا ہے۔ اس لئے کون حق ہے، اس کاجواب بحوالہ کتب معتبره ارسال فرما کر بندہ کو ممنون فرمادیں؟

الجواب : اول تو کسی حدیث صحیح سے شیطان کا قبر کے اندر آنا ثابت نہیں، پھر اگر اس کو بھی مان لیا جاوے تو اس کا آنا محتملِ ضرر نہیں، کیونکہ اس کا اضلال اسی عالم کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ یہ عالم تکلیف والجلاء ہے كما ورد في الحديث فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة  اور جب آدمی مر گیا، اگر مہتدی تھا ضال نہیں ہو سکتا اگرضال تھا مہتدی نہیں ہو سکتا ، پس اس بناء پر اذان کا تجویز کر نا بناء الفاسد علی الفاسد ہے، پھر قطع نظر اس سے یہ قیاس ہے، کیوں کہ حضور کے اور صحابہ سے کہیں منقول نہیں اور اولا تو یہ محل قیاس کا نہیں دوسرے قیاس غیر مجتہد کا ہے کیونکہ بعد مأ تہ رابعہ کے اجتہاد منقطع ہے کما صر حوا بہ بہر حال بوجہ عدم ثبوت بالدلیل الشرعی کے یہ عمل بدعت ہے ۔ بلکہ عدم ثبوت سے بڑھ کر یہاں ثبوت عدم بھی  ہے؛کیوں کہ علماء نے اس کو رد کیا ہے:کما في ردالمحتار أول باب الأذان، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجه للدنیا، لکن رده ابن حجر في شرح العباب

بالخصوص جب کہ عوام اس کااہتمام والتزام بھی کرنے لگیں،کما هو عادتهم في أمثال هذه   کہ التزام مالا یلزمسے مباح بلکہ مندوب بھی منہی عنہ ہو جا تا ہے۔کما صرّح به الفقهاء وفرعوا علیه أحکاماً.والله أعلم."

(کتاب البدعات، ج:11، ص:435، ط: زکریا بک ڈپو انڈیا الھند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں