بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کمیٹی بنانا جائز ہے یا نا جائز؟


سوال

میت کمیٹی بنانا جائز ہے یا نا جائز؟

جواب

واضح رہے کہ  میت کمیٹی بنانا شریعت سے ثابت نہیں ہے؛  کیوں کہ  فوتگی کے موقع پرمیت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام میت کے رشتہ داروں اور ہم سایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام کریں۔

 نیز اس وجہ سے بھی درست نہیں ہے کہ اس کمیٹی کے بنانے  کا مقصد ہر ممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، اس سے قمار کا شبہ ہے۔ 

مزید یہ کہ سارے لوگ خوشی سے چندہ دیتے ہیں یا نہیں، یہ معلوم نہیں، اس لیے بھی احتیاط کرنا ضروری ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منه رواہ البیهقي في شعب الإیمان والدارقطني في المجتبی."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشري)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا بأس باتخاذ طعام لهم.

و في الرد : (قوله: وباتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم، لقوله - صلي الله عليه وسلم- : اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاء هم ما یشغلهم. حسنه الترمذي وصححه الحاکم. ولأنه بِرٌّ ومعروف، ویلح علیهم في الأکل، لأن الحزن یمنعهم من ذلک فیضعفون اھ.

مطلب في کراهة الضیافة من أهل المیت وقال أیضاً: ویکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة. وروی الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰه قال: کنا نعد الاجتماع إلى أهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة اھ."

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، مطلب في الثواب علي المصيبة و مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت،  ج: 2، ص:240، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 403، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں