بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مینٹینینس ادا نہ کرنا


سوال

 جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ فلیٹ میں رہنے والے حضرات مینٹینینس کے نام سے  طے شدہ رقم  یونین کو ہر ماہ دیتے ہیں، جس سے صفائی ( جمعدار سے ہر گھر سے کچرا اٹھانے کا انتظام ) اور روزانہ کمپاؤنڈ کی صفائی، پانی کی سپلائی، چوکیداری اور بجلی اور دیگر اخراجات پورے کرتی ہے،  ہمارا سوال یہ ہے کہ چند مکین حضرات بلا کسی عذر یا مجبوری یہ ماہانہ مینٹینینس کی رقم نہیں دے رہے۔

۱۔ یہ لوگ کاروباری اور اچھی ملازمت والے ہیں ۔

۲۔ان کے پاس ایک سے زائد قیمتی گاڑیاں ہیں ۔

۳۔بچے اچھے اور پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں ۔

۴۔ ماشاء اللہ جماعت سے مسجد میں نماز بھی پڑھتے ہیں ، تبلیغی کام میں شریک ہوتے ہیں۔

۵۔ عید الاضحی میں بڑے اور قیمتی جانور ایک سے زائد لاتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔

۶۔قیمتی  موبائل فون اور دیگر سامان تعیش بھی اللہ کے فضل سے حاصل ہے ۔

ہم یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ تمام تر خوش حالی کے باوجود ان حضرات کا یہ طرز عمل کہ دیگر افراد کی ادا کردہ رقم سے مفت یہ سہولتیں اٹھانا اور ڈھٹائی اور زورآوری سے ادائیگی سے انکار کرنے والے ایسے لوگوں کے بارے میں ہماری شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

عام طور پر بڑی عمارتوں میں خارجی سہولیات فراہم کرنے کے عوض مکینوں سے ماہانہ کچھ رقم وُصول کی جاتی ہے، اس رقم کو مینٹینینس کہا جاتا ہے اور اس رقم سے مکینوں کو پانی کی سہولت دی جاتی ہے، عمارت کے داخلی، خارجی راستوں اور سیڑھیوں پر استعمال ہونے والی بجلی کا بل ادا کیا جاتا ہے، صفائی کا نظم بنایا جاتا ہے، اور اس کے علاوہ لازمی امور کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔

اب مذکورہ سہولیات سے چوں کہ ہر رہائشی مستفید ہوتا ہے، اس لیے ہر رہائشی کے ذمہ مینٹینینس کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، اگر کوئی مکین یہ رقم ادا نہیں کرتا تو وہ دوسروں کی ادا کردہ رقم سے اُن کی بجلی، پانی اور دیگر اشیاء استعمال کرتا ہے اور ایسا کرنا سخت گناہ ہے،لہذا جو لوگ یہ رقم ادا نہیں کرتے اُن سے توبہ کروائی جائے اور ماہانہ مینٹینینس کی ادائیگی پر رضامند کیا جائے ورنہ قانونی چارہ جوئی کی جائے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(المادة ٨٥) :الخراج بالضمان هذه المادة هي نفس الحديث الشريف «الخراج بالضمان» وهي المادة ٨٧ (الغرم بالغنم) :والمادة ٨٨ كلها بمعنى واحد وإن اختلفت الألفاظ فكان من الواجب الاكتفاء بواحدة منها.

الخراج: هو الذي يخرج من ملك الإنسان أي ما ينتج منه من النتاج و ما يغل من الغلات كلبن الحيوان و نتائجه، و بدل إجارة العقار، و غلال الأرضين و ما إليها من الأشياء. و يقصد بالضمان المؤنة كالإنفاق على الحيوان و مصاريف العمارة للعقار و يفهم."

(مقالۃ ثانیۃ جلد:1، صفحہ: 88، طبع: دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں