میں نے ڈیڑھ سال پہلے اپنی بیوی کو پہلی طلاق دی تھی، اس کے بعد میں نے فوراً رجوع کرلیا تھا ایک ہفتہ کے اندر، اب ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد میں نے اپنی بیوی کو دوسری مرتبہ طلاق دی اور میرے الفاظ کچھ یوں تھے ” میں تمہیں دوسری طلاق دے رہا ہوں اور یہ میں نے تمہیں دوسری طلاق دے دی“ اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کل ملا کر یہ تین طلاق شمار ہوں گی یا پھر یہ دو طلاق ہی شمار کی جائیں گی؟ میری نیت صرف دوسری طلاق دینے کی تھے، مگر غصہ کی کیفیت میں یہ الفاظ نکلے، میری راہ نمائی فرمائیں!
صورتِ مسئولہ میں شوہر کے اپنی بیوی کو دوسری طلاق کی نیت اور ارادے سے مذکورہ جملہ ” میں تمہیں دوسری طلاق دے رہا ہوں اور یہ میں نے تمہیں دوسری طلاق دے دی“ کہنے میں شوہر کے ارادے اور پورے جملہ کے انداز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں سے پہلا جملہ ” میں تمہیں دوسری طلاق دے رہا ہوں“ طلاق کی دھمکی اور آگے دی جانے والی طلاق کی اطلاع ہے، اور دوسرے جملہ ”میں نے تمہیں دوسری طلاق دے دی“ میں فی الحال طلاق دی ہے، لہذا اس جملہ سے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی، اور چوں کہ شوہر پہلے بھی ایک طلاق دے چکا ہے، تو یوں مجموعی طور پر بیوی پر دو طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں، بیوی کی عدت میں رجوع کرنا جائز ہے، اور اگر شوہر عدت میں رجوع کرلے گا تو نکاح برقرار رہے گا، اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، بعد ازاں اگر دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں، اور آئندہ کے شوہر کے پاس ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 102):
"ولو قال لامرأته: أنت طالق، فقال له رجل: ما قلت؟ فقال: طلقتها أو قال قلت: هي طالق، فهي واحدة في القضاء؛ لأن كلامه انصرف إلى الإخبار بقرينة الاستخبار".
الفتاوی الهندیة، ۱/۳۸۴،:
"في المحيط: "لو قال بالعربية: أطلق، لايكون طلاقاً إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقاً". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144110201104
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن