بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو کام سے آزاد کرنا


سوال

میری بیوی سے کسی بات پر بحث ہو رہی تھی تو اس نے کہا کے میں نوکرانی کی طرح آپ کے کام کرتی ہوں۔ تو میں نے غصے سے کہا کے میں تمہیں آزاد کرتا ہوں اپنے تمام کاموں سے (کاموں سے مراد کھانا پکانا وغیرہ تھا) ایسی صورت میں طلاق ہو گی یا نہیں؟ اگر ہاں تو پھر اب کیا کرنا ہوگا؟اس میں بیوی کی طرف سے کوئی مطالبہ تھا اور نہ میرا ایسا کوئی ارادہ۔ ویسے ہم پیار محبت سے رہ رہے تھے۔ یہ الفاظ میں نے لاعلمی میں بولے ہیں مطلب مجھے ان کا علم نہیں تھا کے طلاق کے لیے یہ الفاظ بھی ہوتے ہیں۔ برائے مہربانی راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ لفظِ آزاد وقوعِ طلاق کے اعتبار سے اگرچہ صریح ہے،  یعنی لفظِ  آزاد سے دی گئی طلاق نیت کے بغیر ہی  واقع ہو جائے گی، جیسا کہ صریح کا حکم ہے، جب کہ لحوق کے اعتبار سے بائن ہے،  لیکن اگر  اس کی ادائیگی کے وقت عدمِ طلاق کا قرینہ ہو اور شوہر کی نیت طلاق کی نہ ہو تو اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ 

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی کی گفتگو جس تناظر میں ہوئی (یعنی بیوی کو کام کاج سے فارغ کرنا مقصد تھا)، اس قرینے اور شوہر کی نیت نہ ہونے کی وجہ سے "میں تمہیں آزاد کرتا ہوں" سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ 

اصول الشاشی میں ہے :

"و لو ترجح بعض وجوہ المشترك ببیان من قبل المتکلم کان مفسرًا و حکمه أنه یجب العمل به یقینًا."

(البحث الاول فی کتاب اللہ تعالی، بحث الحقیقۃو المجاز، ۱/۴۲، دار الکتب العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں