بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگربیٹی دوں تو بیوی دوں گا، کہنے کا حکم


سوال

 ایک شخص اپنی بیٹی کا نکاح کرواچکا ہے،  البتہ رخصتی نہیں ہوئی ہے۔  اب وہ شخص کہتا ہے بیٹی کے سسرالیوں سے کہ اگر میں تمہیں اپنی بیٹی دوں گا تو اپنی بیوی دوں گا۔ اس جملے کا کیا حکم ہے؟کیا یہ قسم ہے؟اگر قسم ہے تو قسم کی کون سی قسم ہے؟ اور اس جملے سے بظاہر اس کا مقصد اپنی ناراضی کا اظہار کرنا اور بیٹی کی رخصتی نہ کرنا تھا۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ الفاظ قسم کے نہیں ہیں، محض بیٹی کی رخصتی نہ کرنے کے عزم کا اظہار ہے۔ البتہ اس طرح کے الفاظ کا استعمال مناسب نہیں اور  جذبات میں ایسی بات بولنے سے احتراز کرنا چاہیے،  جس سے میاں بیوی کی زندگی خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ بہتر ہے کہ ایسے لوگ  علاقے کے صلحاء و علماء کی طرف رجوع کرکے اپنا مسئلہ حل کریں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 704):

" و ركنها اللفظ المستعمل فيها."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200872

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں