میرے داماد نے میری بیٹی کو یہ الفاظ بولےہیں کہ ”میں تجھے طلاق دیتا ہوں طلاق، طلاق“، اب یہ دریافت کرنا ہے کہ ان الفاظ کا کیا حکم ہے، آیا ان سے طلاق ہوگئی یا نہیں؟ اور کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کے داماد نے اگر واقعۃً اپنی بیوی (سائل کی بیٹی)کو طلاق کے مذکورہ الفاظ(”میں تجھے طلاق دیتا ہوں طلاق، طلاق“ ) ادا کیے ہیں تو اس سے سائل کی بیٹی پر مجموعی اعتبار سے تینوں طلاقیں واقع ہوکر بیٹی حرمت مغلظہ کے ساتھ اپنے شوہر پر حرام ہوگئی ہے، اب رجوع جائز نہیں، اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا،مطلقہ (سائل کی بیٹی)اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح.....(واحدة رجعية وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا) ولو نوى به الطلاق."
(کتاب الطلاق، باب الصریح، 3/ 247، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق و طلاق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا وإن كانت غير مدخولة طلقت واحدة وكذا إذا قال أنت طالق فطالق فطالق أو ثم طالق ثم طالق أو طالق طالق كذا في السراج الوهاج.
رجل قال لامرأته أنت طالق أنت طالق أنت طالق فقال عنيت بالأولى الطلاق وبالثانية والثالثة إفهامها صدق ديانة وفي القضاء طلقت ثلاثا كذا في فتاوى قاضي خان.
متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء."
(کتاب الطلاق، باب فی إیقاع الطلاق، 1/ 390، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602101682
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن