بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میسج کے ذریعے طلاق دینے کا حکم


سوال

میں نے غصے میں آکر اپنے سسر کو میسج کیا تھا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں، اور پھر چار دن بعد   اپنے سسر کو میں نے  میسج کیا کہ میں طلاق واپس لے رہا ہوں، اور رجوع کر رہا ہوں، تو کیا ایک طلاق ہوگئی تھی؟ اور کیا یہ رجوع ہوگیا ہے؟ میرے سسر نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کو طلاق کا بھی بتا دیا اور رجوع کا بھی بتا دیا ہے، لیکن فی الحال وہ ابھی بات نہیں کرنا چاہ رہی، اور کہہ رہی ہے کہ اس نےطلاق کیسے دی؟ میرا سسر کہہ رہا ہے کہ انہوں نے کسی سے پوچھا ہے کہ  کیا طلاق ہوگئی ؟ تو ان کو جواب ملا ہے کہ ہاں ہوگئی، اور رجوع نہیں ہوا۔

میرا سوال یہ ہے  کہ میں نے سسر کو بھی رجوع کا پیغام دیا ہے؛ کیوں کہ  میں نےطلاق کا میسج  سسر کو کیا تھا، بیوی کو نہیں ، اور رجوع کا پیغام میں نے سسر اور اپنی بیوی کو بھیجا اور دونوں نے پڑھ  لیا ،مگر میری بیوی نے  مجھے یہ نہیں کہا کہ ہاں میں رجوع قبول کر رہی ہوں، یہ کوئی بھی مسج نہیں کیا تو کیا یہ رجوع ہوگیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح زبان سے طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اسی طرح کسی چیز پر  لکھ دینے یا میسج میں لکھ کر بھیجنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔

(1)-صورتِ مسئولہ میں جب سائل نےاپنےسسر کو میسج کیا تھا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں، تو اس سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی، طلاق کے چار دن بعد جب سسر کو یہ  میسج کیا کہ میں طلاق واپس لے رہا ہوں اور رجوع کر رہا ہوں،تو اس سے رجوع ہوگیا ہے،تاہم پہلی طلاق ختم  نہیں ہوئی، اب سائل اور اس کی بیوی ازدواجی حیثیت سے رہ سکتے ہیں،البتہ آئندہ کے لیے سائل کو صرف دو طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

(2)-اگر سائل نے سسر کو یہ کہہ دیا تھا کہ میں رجوع کر رہا ہوں تو اس سے رجوع  ہوگیا ہے،بیوی کا قبول کرنا ضروری  نہیں ہے۔

نوٹ: واضح رہے کہ یہ جواب اس صورت میں ہے جب سائل اور اس کی بیوی کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم ہوچکے ہوں، اگر ہم بستری نہیں ہوئی تو دوبارہ سوال کر کےمعلوم کیا جائے۔

رد المحتار میں ہے:

"قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو."

(کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ، ج:3، ص:246،ط:ایچ ایم سعید)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر."

(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق،ص:3،ج:248،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"في المحيط ‌لو ‌قال ‌بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا."

(کتاب الطلاق،الفصل السابع فی الطلاق باالالفاظ الفارسیۃ،ج:1،ص:384،ط:ایچ ایم سعید)

رد المحتار میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) أي عدة الدخول حقيقة إذ لا رجعة في عدة الخلوة ابن كمال...وتصح...(بنحورجعتك)...؛بلا نية لأنه صريح...(قوله: أي عدة الدخول حقيقة) أي الوطء ح (قوله: إذ لا رجعة في عدة الخلوة) أي ولو كان معها لمس، أو نظر بشهوة ولو إلى الفرج الداخل ح ووجهه أن الأصل في مشروعية العدة بعد الوطء تعرف براءة الرحم تحفظا عن اختلاط الأنساب، ووجبت بعد الخلوة بلا وطء احتياطا، وليس من الاحتياط تصحيح الرجعة فيها رحمتي (قوله: ابن كمال) حيث قال في العدة بعد الدخول: لا بد من هذا القيد لأن العدة قد تجب بالخلوة الصحيحة بلا دخول ولا تصح فيها الرجعة. اهـ. قلت: وتقدم أيضا في باب المهر أن الخلوة الصحيحة لا تكون كالوطء في الرجعة. اهـ. وإذا كان ذلك في الخلوة الصحيحة فالفاسدة بالأولى"

(کتاب الطلاق، باب الرجعۃ،ج:3،ص:398،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں