بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں نے تمہیں طلاق دی تین مرتبہ کہنے کا حکم


سوال

میرے میاں نے تقریبا 2007 /2008 میں دو دفعہ یہ الفاظ بولے کہ "میں نے تمہیں طلاق دی ،میں نے تمہیں طلاق دی "،اس کے ایک دو دن میں رجوع ہو گیا تھا ،پھر 2010 میں ایک طلاق دی کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں "،میں نے الہدی والوں سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ پہلی بار جب تمہارے میاں نے ایک ساتھ دو طلاقیں  دی تھیں وہ ایک ہی شمار ہو ں گی تو اس کے بعد ہم نے ساتھ رہنا شروع کر دیا ،اب ایک ہفتہ پہلے میں نے میاں سے مطالبہ کیا کہ مجھے طلاق دو تو اس نے کہا "دے دی" پھر میں نے کہا کہ طلاق دیدو تو اس نے کہا کہ "دے دی"۔اب پوچھنا یہ ہے کہ الہدی والوں کا کہنا درست تھا ۔اب مذکورہ مطالبہ کے میاں کا کہنا کہ دے دی اس سے طلاق ہو گئی ہے کہ میں عدت میں بیٹھ جاؤں ۔

جواب

صورت  مسئولہ میں اگر واقعۃً شوہر نے اولاً دو مرتبہ ان الفاظ کے ساتھ طلاق دی کہ "میں نے تمہیں طلاق دی "تو اس سے سائلہ پر دو طلاق رجعی واقع ہو  گئیں،شوہر کو بیوی کی عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل تھا،اس کے بعد شوہر نے دوران عدت اگر  رجوع کر لیا تھایعنی ساتھ رہنا شروع کر دیا تھاتو یہ رجوع شرعا درست تھا   اور رجوع کے بعد شوہر آئندہ کے لیے فقط ایک طلاق کا مالک تھا ،بھر اس کے تقریبا دو سال بعد شوہر نے ان الفاظ کے ساتھ ایک مرتبہ طلاق دی کہ "میں نے تمہیں طلاق دی "تو اس سے سائلہ پر تیسری طلاق بھی واقع ہو  چکی تھی ،سائلہ  اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی تھی ،رجوع کی گنجائش نہیں تھی ،اس کے بعد جو دونوں ساتھ رہتے رہے ہیں یہ حرام کاری پر مبنی ہے ،نکاح ختم ہو چکا ہے دونوں میں فی الفور علیحدگی ضروری ہے اور تیسری طلاق کے بعد جو ساتھ رہتے رہے ہیں اس پر صدق دل سے توبہ و استغفار ضروری ہے،سائلہ اپنے شوہر سے علیحدہ ہونے کے وقت سے اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو ،اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک )گذار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

              وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير          

(کتاب الطلاق فصل فیما تحل بہ المطلقہ وما              یتصل بہ ج:1/ص:473/ط:رشیدیہ)

واضح رہے کہ تین طلاقیں خواہ اکھٹی دی جائیں یا الگ الگ نشستوں میں دی جائیں بہر صورت تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور یہ قرآن و سنت ،جمہور صحابہ و تابعین اور چاروں اماموں (حنفی،مالکی ،شافعی ،حنبلی)کا متفقہ فیصلہ ہے ،لہذا سائلہ کو چاہیے تھا کہ الہدی یا اسی طرح دیگر غیر مقلدانہ نظریہ رکھنے والے لوگوں سے مسئلہ معلوم کرنے کے بجائے کسی مستند دار الافتاء یا مفتی سے مسئلہ معلوم کرتی تاکہ شریعت کے مطابق درست رہنمائی ہو جاتی اور گناہ والی زندگی سے بھی حفاظت ہوتی ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں