میری شادی ماموں کی بیٹی سے ہوئی ،شادی سے پہلے میرامحبت دوسری لڑکی کے ساتھ تھی ، میرا ارادہ تھا کہ میں اس کے ساتھ شادی کروں، اس کا تذکرہ میں نے والدین اور بیوی کے ساتھ کیا، لیکن انہوں نے انکار کیا ، اس کے باوجود میں نے ہر طرح کی ممکن کوشش کی کہ سب کی رضامندی سے شادی ہوجائی،ں لیکن کوئی بھی راضی نہیں ہوا ،آخر کار میں نے خود اپنے بل بوتے پر شرعی طریقے سے دوسری شادی کی ،جس میں لڑکی کے والدین اور خاندان کو راضی کیا، پھر ہم الحمد اللہ ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے کہ اچانک میرے والدین اور ماموں (جو میری پہلی بیوی کا والد ہے) کو میری دوسری بیوی کا پتہ چلا تو ماموں کے گھروالوں نے کہا کہ یا پہلی بیوی کو طلاق دو یا دوسری بیوی کو طلاق دے دو،میں نے ان کو سمجھایا کہ میری دوسری بیوی پہلے سے طلاق یافتہ اور دو بچیوں کی ماں تھی، میں نے اللہ کی رضا اور حرام رشتے سے بچنے اور ان کو سہارا دینے کےلیے شادی کی ،میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ میرے والدین اور پہلی بیوی راضی ہوجائیں، لیکن والدین راضی نہ ہوئے تو دوسری طرف میرے ماموں جو کہ میرا سسر بھی ہے اور چھوٹے ماموں نے دھمکیاں دیں کہ اگر آپ نے طلاق نہیں دی تو ہم آپ کو یا پھر اسی دوسری بیوی کو قتل کردیں گے ،اس کے بعد میرے والد اور چچا نے اصرار کیا کہ تم اپنی دوسری بیوی کو طلاق دے دو تو میں نے والد اور چچا کو خاموش کرنے کی خاطر میں نے ان سے جھوٹ بولا کہ میں نے اسے چھوڑدیاہے ،جب کہ میں نے اس کو نہیں چھوڑا تھا اور منہ سے الفاظ طلاق بھی ادا نہیں کیے تھے، اس بات پر میرے گھر والوں کو بھروسہ نہیں ہوا، پھر والد نے تقریباً تین دن بعد طلاق نامہ بنوایا اور مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ انہوں نے طلاق نامہ بنوایا ہے، میں چچا کے گھر میں پندرہ دن سے تھا تو چچا نے کہا کہ ہمارے ساتھ ادھر یعنی لڑکی کے گھر جاؤ ، ان کے ساتھ بات کریں گے کہ نعمان نے تمہاری بیٹی کو چھوڑ دیا ہے ،میں چچا کے ساتھ گاڑی میں گیاجب کورنگی پہنچے تو میں گاڑی میں بیٹھا تھا کہ مجھے طلاق نامہ دیا اور والد ،چچا ،ماموں نے کہا کہ اس پر دستخط کرو، میں نے دستخط کیا ، میں نے ان کو چپ کرانے کےلئے پیپر پر دستخط کیا، میں نے طلاق نامہ نہیں پڑھاتھا اور نہ مجھے اس وقت یا اس وقت سے پہلے علم تھا کہ طلاق نامہ میں کتنی بارطلاق کا ذکر ہے، دستخط کے پندرہ دن بعد مجھے پتہ چلا کہ طلاق نامہ میں تین طلاق کا ذکر تھا اور میری دوسری بیوی دوماہ کی حاملہ تھی اور میں نے اپنی بیوی کو فون کرکے بولا کہ میں نے آپ کو طلاق نہیں دی ہے، ہم دونوں ساتھ رہنا چاہتے تھے میری بیوی نے بھی طلاق نامہ پر دستخط نہیں کیا،کیا طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں آپ نے پہلی مرتبہ گھروالوں کو خاموش کرنے کےلیے جو کہا کہ میں نے اسے چھوڑدیا ہے،اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے اور اس کے بعد سائل نے طلاق نامہ پر دستخط ان کو خاموش کرنے کےلئے کیےہیں جب کہ دستخط کرتے وقت نہ تو کسی نے قتل کی دھمکی دی اور نہ ہی تلف عضو کی ،بلکہ اس وقت والد اور چچا بھی موجود تھے ،جو اپنی اولاد کے قاتل نہیں ہوسکتے،لہذا اس ماحول کو شرعی جبر واکراہ کا ماحول قرار نہیں دیا جاسکتا، البتہ سوال کے مطابق سائل نے نہ طلاق نامہ پڑھا تھا اور نہ اس کو پڑھ کر سنایاگیااور نہ ہی معلوم تھا کہ اس میں کتنی طلاقیں ذکر ہیں،اور نہ ہی سائل کے ذہن میں تھا کہ طلاق نامہ میں عموماً تین طلاق ہی درج ہوتی ہیں ،بلکہ محض طلاق نامہ سمجھ کر اس پر دستخط کردیا تو اس سے مزید ایک طلاق واقع ہوگئی،لہذا سائل کی دوسری بیوی پر دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، سائل کو عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کے پیدائش تک ) کے اندر اندر رجوع کرنے کا اختیار ہےرجوع کامستحب طریقہ یہ ہے کہ دو شرعی گواہوں کے سامنے زبان سے کہے کہ میں نے رجوع کیا اور اگر بیوی سے بوس و کنار کیا تب بھی رجوع ہوجائے گا،اور اگر دوران عدت رجوع نہ کرے تو عدت ختم ہونے کے بعد نکاح ختم ہوجائےگا،مطلقہ کو اختیار ہوگا، جس کے ساتھ چاہے شادی کرسکتی ہے،اگر پہلے شوہر کے ساتھ چاہے تو بھی جائز ہے، البتہ پہلے شوہر کے پاس اس کے بعد ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا،لیکن اگر سائل کو دستخط سے پہلے کسی طرح علم تھا کہ طلاق نامہ میں تین طلاق درج ہیں تو پھر اس صورت میں سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں مغلظہ واقع ہوکر نکاح ختم ہوگیا،جس کے بعد رجوع یا تجدید نکاح کا کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
ردالمحتار علی الدرالمختار میں ہے:
"بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري.
فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.
وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية سرحتك ومثله ما قدمناه في أول باب الصريح من وقوع الرجعي بقوله " سن بوش " أو " بوش " أول في لغة الترك مع أن معناه العربي أنت خلية، وهو كناية لكنه غلب في لغة الترك استعماله في الطلاق.
(قوله سرحتك) من السراح بفتح السين: وهو الإرسال أي أرسلتك لأني طلقتك أو لحاجة لي."
(کتاب الطلاق، باب الکنایات،3/ 299 ،300، ط: دار الفکر)
البحر الرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:
"ومشايخ خوارزم من المتقدمين ومن المتأخرين كانوا يفتون بأن لفظ التسريح بمنزلة الصريح يقع به طلاق رجعي بدون النية كذا في المجتنى."
(کتاب الطلاق، باب الکنایات فی الطلاق، 3/ 325، دارالکتاب الإسلامی)
الفتاوی الھندیه میں ہے:
"فالمعتبر في المكره تمكنه من إيقاع ما هدد به، فإنه إذا لم يكن متمكنا من ذلك فإكراهه هذيان، وفي المكره المعتبر أن يصير خائفا على نفسه من جهة المكره في إيقاع ما هدد به عاجلا؛ لأنه لا يصير ملجأ محمولا طبعا إلا بذلك، وفيما أكره به أن يكون متلفا أو مزمنا أو متلفا عضوا أو موجبا غما بعدم الرضا، وفيما أكره عليه أن يكون المكره ممتنعا منه قبل الإكراه."
(کتاب الإکراہ، الباب الأول، 5/ 35، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً:
"وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."
(کتاب الطلاق، الباب الثانی، الفصل السادس، 1/ 378، ط: دار الفکر)
مجمع الأنھر فی شرح ملتقی الأبحر میں ہے:
"واعلم أن البدعي على نوعين بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي يعود إلى الوقت وقد بدأ بالأول فقال (وبدعيه) أي بدعي الطلاق عددا (تطليقها ثلاثا، أو ثنتين بكلمة واحدة) مثل أن يقول أنت طالق ثلاثا، أو ثنتين وهو حرام حرمة غليظة وكان عاصيا لكن إذا فعل بانت منه."
(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی علی نوعین، 1/ 382، ط: دار إحیاء التراث العربی)
الفتاوی الھندیه میں ہے:
"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا."
(کتاب الطلاق، الباب الأول، الطلاق البدعی، 1/ 349، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً :
"الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة."
(کتاب الطلاق، الباب السادس، 1/ 468، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101814
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن