بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عنقریب عیسائی مذہب میں داخل ہو جاؤں گا کہنے کا حکم


سوال

اگر کسی نے کہا: "میں عنقریب عیسائی مذہب میں داخل ہو جاؤں گا ان شاءاللہ " ۔۔۔ اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

بہتر تھا کہ پوری وضاحت کرکے سوال کیا جاتا کہ مذکورہ جملہ کس شخص نے کس موقع پر کہا ہے؟  تاہم اصولی جواب یہ ہے کہ اگر  کوئی   مسلمان    جبر و اِکراہ کے بغیر، بطورِ ارادہ  کہے   کہ  "میں عنقریب  عیسائی  مذہب  میں  داخل  ہوجاؤں  گا  ان شاء اللہ"  تو اس سے  وہ   دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجائے گا،  اور اگر شادی شدہ  ہے تو نکاح بھی اس کا ختم ہوجائے گا،  اس پر   تجدیدِ  ایمان کے ساتھ توبہ اور  اگر شادی شدہ ہو تو تجدید نکاح بھی ضروری ہوگا۔ 

لسان الحکام میں ہے:

"ومنها: اذا عزم على الكفر و لو بعد سنة يكفر في الحال بخلاف الإسلام حيث لايصير الكافر مسلمًا بالعزم على الإسلام."

(لسان الحكام:  الفصل السابع والعشرون فيما يكون إسلاما من الكافر... فصل فيما يكون كفرا من المسلم ومالا يكون (1/ 415)،ط.  البابي الحلبيسنة النشر : 1393 = 1973)

نصاب الاحتساب میں ہے:

"من عزم على أن يأمر غيره بالكفر كان كافرًا ... ومن رضي بكفر نفسه فقد كفر."

(نصاب الاحتساب:الباب التاسع عشر في الاحتساب على من يتكلم بكلمات الكفر(ص:194)،ط.مكة الطالب الجامعي، الطبعة الأولى: 1406هـ)

الفاظ الکفر لمحمد بن اسماعیل المعروف ببدر الرشید (المتوفی:768ھ) میں ہے:

"و لو عزم على الكفر و لو بعد مائة سنة  يكفر في الحال."

(الجامع لالفاظ الكفر، الكتاب الأول لبدر الرشيد: الفاظ الكفر: فصل في قواعد التكفير (ص: 230)،ط. دار إيلاف الدولية للنشر والتوزيع، الكويت)

فتح القدير میں ہے:

"ومنهم من قيد جواز الإقتداء بهم كقاضيخان بأن لا يكون متعصبا ولا شاكا في إيمانه ويحتاط في موضع الخلاف كأن يتوضأ من الخارج النجس ويغسل ثوبه من المنى ويمسح ربع رأسه في أمثال هذه ولا يقطع الوتر ولا يخفى أن تعصبه إنما يوجب فسقه ولا مسلم يشك في إيمانه، وقول إن شاء الله يقولونها للتبرك لا للشرط."

(فتح القدير: كتاب الصلاة، باب صلاة الوتر (1/ 436)،ط. دار الفكر، بيروت)

الدر المختار میں ہے:

"وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ما يكون كفرا اتفاقا: يبطل العمل والنكاح وأولاده أولاد زنا."

                                                   (الدر المختار: كتاب الجهاد، باب المرتد (1/ 348)،ط.دار الكتب العلمية، الطبعة: الأولى، 1423هـ- 2002م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں