بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں آپ سے رشتہ نہیں رکھنا چاہتا کہنے کا حکم


سوال

میری شادی کو 14 سال ہو گئے ہیں ، میں نے اپنی بیوی کو 13 سال تک خوشحال رکھا،تقریبا ایک سال سے میرے حالات خراب ہوگئے ہیں، میں قرض دار ہو گیا ہوں، میری بیوی اس  کمزور حالت میں مجھے چھوڑ کر ہمارے تین بچوں سمیت اپنے والدین کے گھر چلی گئی ہے، تقریبا ایک ہفتہ پہلے میں اپنی بیوی کو سمجھا رہا تھا کہ یہ رویہ درست نہیں ہے ،مگر وہ نہیں مان رہی تھی ،میرے ساتھ آنے پر راضی نہیں تھی، واپس آکر میں نے اپنی بیوی کو فون پر یہ جملہ کہا  میں آپ سے رشتہ نہیں رکھنا چاہتا (صرف  ایک مرتبہ میں نے کہا  اور اس جملے سے میری کوئی طلاق کی نیت نہیں تھی) جبکہ میری بیوی کہتی ہے  کہ آپ نے دو مرتبہ یہ جملہ کہا ہے ۔

(وضاحت: میں حلفیہ کہہ سکتا  ہوں کہ یہ جملہ میں نے ایک مرتبہ کہا ہے.)

اب سوال یہ ہے کہ1: یہ جملہ کہنے سے کوئی طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

 2: میری بیوی کا یہ کہنا کہ میں نے دو مرتبہ یہ جملہ کہا ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟

3:میری  بیوی کے اس رویہ پر شریعت کیا کہتی ہے ؟شوہر کے حقوق کے متعلق میری بیوی کے لئے شرعی احکامات کیا ہیں ؟

جواب

2،1۔صورت مسؤلہ میں چونکہ سائل نے مذکورہ الفاظ طلاق کے ارادے اور نیت سے نہیں کہےتھے اس لیے  مذکورہ الفاظ سے( چاہے ایک مرتبہ کہےہو ں یا دو مرتبہ) سائل کی بیوی پر پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، سائل اور اس کی بیوی کا نکاح برقرار ہے۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى".

(الفتاوى الهندية،کتاب ا لطلاق (1/ 375)ط: رشیدیہ)

3۔سائل  کی بیوی کا سائل کوبلااجازت چھوڑ کر بچوں سمیت اپنے والدین کے گھر چلے جانا درست نہیں، شریعتِ مطہرہ میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور  دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی  بہت تاکید کی گئی ہے، احادیث مبارکہ میں جو عورت شوہر کی  نافرمانی کرے ایسی عورت کے بارے میں   سخت وعیدیں آئی ہیں، اور جو عورت شوہر کی فرماں برداری  اور اطاعت کرے اس کی بڑی فضیلت  بیان  کی گئی ہے۔

         حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح»".

(مشکاۃ المصابیح، باب عشرۃ النساء،ص:280 ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے  تو فرشتہ اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے  رہتے ہیں۔(مظاہر حق،3/  358، ط؛  دارالاشاعت)

         ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".

(مشکاۃ المصابیح، باب عشرۃ النساء،ص:281 ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم   نے  فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔(مظاہر حق، 3/ 366، ط؛  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي  أبواب الجنة شاءت" . رواه أبو نعيم في الحلية".

(مشکاۃ المصابیح،  باب عشرۃ النساء،ص:281،ط: قدیمی)

ترجمہ:  حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔(مظاہر حق،3/  366، ط: دارالاشاعت)

         خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے  کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے،  اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا  اور آخرت کی بھلائی  اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے،  اور شوہر کو چاہیے کہ  وہ اپنی بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے،  اس  کی قدر اور اس سے محبت  کرے، اگر اس سے غلطی ہوجائے تو چشم پوشی  سے کام لے، صبروتحمل اور دانش مندی سے اس کی  اصلاح کی کوشش کرے،  اپنی استطاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں