’’جمعیت پنجابی سوداگران دہلی‘‘ جو کہ ایک معروف ادارہ ہے، یہ ادارہ میت کی تدفین اور دیگر اخراجات کے سلسلے میں اس کے ورثاء سے کل 35,000 روپے وصول کرتے ہیں، جس میں سے 20,000 روپے میت کی تدفین کی مد میں اور 15,000 روپے بس کا کرایہ ہوتا ہے، واضح ر ہے کہ پورے 20,000 روپے میت کی تدفین کی مد میں خرچ نہیں ہوتے، بلکہ تقریباً 9,000 روپے گورکن کی فیس، قبر پر رکھی جانی والی سلیپ اور سمینٹ وغیرہ کا خرچہ ہے، اور بقیہ رقم قبرستان کے مینٹیننس مثلاً بجلی کے بل، گارڈز کی تنخواہ اور برادری کے دیگر قبرستان کے مینٹیننس کے طور پر وصول کی جاتی ہیں۔ اسی طرح 15,000 روپے مکمل بس کا کرایہ نہیں ہے، بلکہ اس میں سے کچھ رقم ڈرائیور کی فیس اور بس کے ڈیزل میں خرچ ہوتی ہے، اور باقی رقم اس کے امکانی خرچے مثلاً ٹائرپنکچر، بس کی سروس وغیرہ کی مد میں وصول کی جاتی ہے، تو اب سوال یہ ہے کہ میت کے ترکہ میں سے تدفین اور بس کرایہ کے اصل خرچہ کے علاوہ باقی مینٹیننس کے طور پر رقم وصول کرنا شر عًا درست ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ کسی عمل یا سروس کی فراہمی پر اجرت (فیس) کی تعیین اور اس کا معیار شرعًا فریقین کی باہمی رضامندی پر ہوتا ہے، فریقین باہمی رضامندی سے جو بھی اجرت مقرر کرلیں وہ جائز ہوگی، تاہم اجرت اتنی مقرر ہونی چاہیے جتنی کہ عرف و رواج میں کسی عمل یا سروس کی اجرت لی جاتی ہے، اسی طرح وہ اجرت ہر ایک بسہولت ادا بھی کرسکتا ہو، کسی فریق کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عرف و رواج سے بہت زیادہ اجرت مقرر کرنا مروت کے خلاف ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں 35,000 روپے کی جو رقم تدفین کے اخراجات اور بس کے کرایہ کے طور پر میت کے لواحقین سے لی جاتی ہے، اگر بوقتِ عقد مذکورہ ادارہ اور میت کے لواحقین کے درمیان یہ طے ہو کہ اتنی اتنی رقم اس اس مد میں لی جاتی ہے اور بقیہ رقم قبرستان کے مینٹیننس یا میت بس کے دیگر امکانی اخراجات کی مد میں وصول کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں مینٹیننس اور دیگر امکانی اخراجات کی مد میں رقم وصول کرنا شرعًا درست نہیں ہوگا، اور مذکورہ زائد رقم وصول کرنا ناحق اور بلاوجہ شرعی ہوگا۔
اگر یہ رقم مذکورہ ادارہ ان کاموں کی مد میں بغیر کسی تفصیل کے مطلقاً وصول کرتا ہے، پھر تدفین اور بس کرایہ کے اصل خرچہ کے بعد بقیہ رقم دیگر اخراجات میں صرف کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں اجارہ کا یہ معاملہ شرعًا درست ہوگا، اور مذکورہ رقم لینا بھی جائز ہوگا، تاہم کسی رفاہی ادارے کے قیام کا مقصد لوگوں سے ہمدردی اور ان کے ساتھ امداد و تعاون ہوتا ہے، چناں چہ عمل یا فراہم کردہ سروس سے بہت زیادہ اجرت مقرر کرنا یا امیر و غریب ہر ایک سے ایک ہی طرح کی فیس وصول کرنا ادارے کے مقصدِ قیام کے منافی ہے، اور اخلاق و دیانت کے بھی خلاف ہے، لہٰذا ادارے کے ذمّہ داران کو چاہیے کہ غریب اور مجبور لوگوں سے اس مد میں رقم ہی نہ لیں، اگر کچھ لیتے ہیں تو اتنی ہی لیں جتنی کہ تدفین اور بس کرایہ کی مد میں صرف ہوتی ہے، اسی طرح امراء اور صاحبِ حیثیت افراد سے بھی بقدرِ لاگت رقم لیں، ہاں اگر وہ اس سے زیادہ دینا چاہیں تو اس کے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس کے علاوہ مینٹیننس اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کےلیے فنڈ کی وصولی کا انتظام کیا جائے اور اسی رقم سے وہ اخراجات پورے کیے جائیں۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» ."
(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، رقم الحدیث:2946، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ: ’’حضرت ابوحرۃ رقاشی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار! کسی پر ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔‘‘ (از مظاہرِ حق)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية. (وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."
(كتاب الإجارة، الباب الأول، ج:4، ص:409، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
وفي الرد: (قوله: كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقدا منها فلو كانت كيليا أو وزنيا أو عدديا متقاربا فالشرط بيان القدر والصفة وكذا مكان الإيفاء لو له حمل ومؤنة عنده، وإلا فلا يحتاج إليه كبيان الأجل، ولو كانت ثيابا أو عروضا فالشرط بيان الأجل والقدر والصفة لو غير مشار إليها، ولو كانت حيوانا فلا يجوز إلا أن يكون معينا بحر ملخصا."
(كتاب الإجارة، شروط الإجارة، ج:6، ص:5، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)
وفيه أيضاً:
"[مطلب في بيان المراد بالزيادة على أجر المثل]
بقي شيء يجب التنبيه عليه، وهو ما المراد بزيادة أجر المثل؟ فنقول: وقعت الزيادة في أغلب كلامهم مطلقةً، فقالوا: إذا زادت بزيادة الرغبات. ووقع في عبارة الحاوي القدسي: أنها تنقض عند الزيادة الفاحشة.
قال في وقف البحر: وتقييده بالفاحشة يدل على عدم نقضها باليسير، ولعل المراد بالفاحشة ما لايتغابن الناس فيها، كما في طرف النقصان، فإنه جائز عن أجر المثل إن كان يسيرًا، والواحد في العشرة يتغابن الناس فيه كما ذكروه في كتاب الوكالة، وهذا قيد حسن يجب حفظه، فإذا كانت أجرة دار عشرة مثلًا وزاد أجر مثلها واحدًا فإنها لاتنقض كما لو آجرها المتولي بتسعة فلأنها لاتنقض بخلاف الدرهمين في الطرفين اهـ. أقول: لكن صرح في الحاوي الحصيري كما نقله عنه البيري وغيره أن الزيادة الفاحشة مقدارها نصف الذي أجر به أولًا اهـ ونقله العلامة قنلي زادة، ثم قال: ولم نره لغيره. والحق أن ما لايتغابن فيه فهو زيادة فاحشة نصفًا كانت أو ربعًا."
(كتاب الإجارة، شروط الإجارة، ج:6، ص:23، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603100130
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن