بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی استعمال کی اشیاء کی تقسیم


سوال

میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اور والد صاحب کا انتقال پہلے ہی ہو چکاہے، اب سوال یہ ہے کہ میری والدہ کے استعمال کی کچھ چیزیں ہیں جیسے کہ برتن، تسبیح ، جائےنماز، کپڑے جوتیاں وغیرہ،جب کہ سونے کی کوئی چیز نہیں ہے، لواحقین میں زندوں میں صرف دو بیٹے ہیں، جب کہ ایک بھائی اور دو بہنوں کا انتقال ہو چکا ہے جو کہ شادی شدہ تھے، شرعی اعتبار سے والدہ کے استعمال کی اشیاء کی تقسیم کے بارے میں فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ اداکرنے کے بعد یعنی مرحومہ کے تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر مرحومہ کے ذمہ قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ترکہ کی ایک تہائی حصہ سے نافذکرنے کے بعد باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو بشمول مذکورہ ذاتی استعمال کی اشیاء کے، دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک ،ایک حصہ ہر ایک زندہ بیٹے کو ملے گا،جن بیٹے ،بیٹیوں کاانتقال ہوچکا ہے اگر ان کا انتقال والدہ مرحومہ  کے انتقال سے پہلے ہوا ہے تو ان کو مرحومہ کے ترکہ سے بطورِ میراث کے حصہ نہیں ملے گا۔

میت:2

بیٹابیٹا
11

یعنی 100 روپے میں سے 50 روپے ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔

واضح رہے کہ مذکورہ تقسیم اس وقت ہے جب انتقال کرنے والے بیٹے ،بیٹیوں کا انتقال والدہ مرحومہ کے انتقال سے پہلے ہوچکاہواور اگر  انتقال کرنے والے بیٹے ،بیٹیوں کا انتقال والدہ مرحومہ کے انتقال کے بعد ہوا ہو  تو مذکورہ بیٹوں ،بیٹیوں کے ورثاء یعنی  ان کی بیوہ ،شوہراور ان کی اولاد کی تفصیل لکھ کر بھیج دیں تو اس کے مطابق جواب دے دیا جائے گا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں