بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے ایصالِ ثواب کے لیے ختم قران کرنے کے بعد عورتوں کا اجتماعی طور پر دعا کرنا


سوال

میت کی تدفین کے بعد اور اس کے بعد 3دنوں تک ایصالِ ثواب کے  لیے جو ختم قرآن شریف کیا جاتا ہے اور یٰس شریف کا ختم بھی کیا جاتا ہے ،تو اس کے بعد عورتوں کا اجتماعی طور پر دعاکرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور انفرادی طور پر کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ میت کےلیے ایصالِ ثواب کرنا مستحب ہے ،لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے؛ لہذامرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے اعزہ و اقارب کا نفسِ قرآن کریم پڑھنا اور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے، لیکن اس کے لیے مروجہ طریقے پر خاص دن میں مثلاً انتقال کے تیسرے دن ،چالیسویں دن یا برسی پر  اقارب کا جمع ہوکر اجتماعی قران خوانی کرنا،میت کے گھر والوں کی طرف سے کھانے پینے کا التزام کرنااور لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کرنا ،نہ آنے والوں سے ناراضی کا اظہار کرنا  اور ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ، ناجائز اور ممنوع ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں میت کے اعزہ واقارب کا میت کے لیے ختم قران کرنا اور یٰس شریف کا ختم کرنا تو درست ہے، (بشرطیکہ عورتوں کی تلاوت یا دعا کی آواز غیر محارم تک نہ پہنچے) لیکن مردوں یاعورتوں کے جمع ہوکر اجتماعی طور پر دعا کرنے میں اگر مذکورہ قبائح ہوں کہ وہاں باقاعدہ متعین دن میں  دعوت دے کر عورتوں کو جمع کیا گیا ہواور کھانے پینے کا وہاں التزام کیا گیا ہواور اس کو لازم سمجھتے ہوں  تو ان کا جمع ہوکر اجتماعی طورپر قران خوانی یادعا کرنابدعت  ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات أو الأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة وقد صح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «أنه ضحى بكبشين أملحين: أحدهما: عن نفسه، والآخر: عن أمته ممن آمن بوحدانية الله تعالى وبرسالته» - صلى الله عليه وسلم - وروي «أن سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - سأل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال يا رسول الله: إن أمي كانت تحب الصدقة أفأتصدق عنها؟ فقال النبي: - صلى الله عليه وسلم - تصدق» وعليه عمل المسلمين من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من زيارة القبور وقراءة القرآن عليها والتكفين والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابها للأموات، ولا امتناع في العقل أيضا لأن إعطاء الثواب من الله تعالى إفضال منه لا استحقاق عليه، فله أن يتفضل على من عمل لأجله بجعل الثواب له كما له أن يتفضل بإعطاء الثواب من غير عمل رأسا."

(كتاب الحج،فصل نبات الحرم،212/2،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت.

وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى. اهـ."

(كتاب الصلاة،باب صلاة الجنازة،مطلب في الثواب علي المصيبة،240/2،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں